سورة آل عمران - آیت 180

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جو لوگ اس (مال) میں بخل سے کام لیتے ہیں جو انہیں اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے، اس کے برعکس یہ ان کے حق میں بہت بری بات ہے، جس مال میں انہوں نے بخل سے کام لیا ہوگا، قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔ (٦١) اور سارے آسمان اور زمین کی میراث صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : مال اور جان اللہ کے راستے میں قربان کرنے چاہییں۔ منافق مخلص مسلمانوں کو جہاد پر خرچ کرنے سے روکتے تھے اس لیے احد کے غزوہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بخل کی مذمت کی گئی ہے۔ منافق مسلمانوں کو صرف جہاد فی سبیل اللہ سے دلبرداشتہ اور منع ہی نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو مایوس کرنے کی کوشش بھی کرتے۔ ان کا اپنا حال یہ تھا کہ جہاد فی سبیل اللہ سے دور بھاگتے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے بچنے کی کوشش کرتے۔ اس طرح وہ مال خرچ کرنے کی بجائے اسے جمع رکھنے کے روییّ پر گامزن تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے یہاں تک مہم چلائی اور زبان درازی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ قطعاً تعاون نہیں کرنا چاہیے تاکہ یہ تنگ آکر مدینہ خالی کردیں اس طرح مدینہ گھٹیا لوگوں سے پاک ہوجائے گا۔ [ المنافقون :8] یہاں منافقوں کے حوالے سے ہر کسی کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ جو لوگ غریبوں‘ مسکینوں اور جہاد فی سبیل اللہ پر خرچ کرنے کے بجائے بخل کرتے ہیں وہ ہرگز گمان نہ کریں کہ جو مال اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے وہ جمع کرنے کی صورت میں ان کے لیے بہتر ہوگا بلکہ جس مال کو اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے جمع کر رہے ہیں وہ ان کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ عنقریب درہم و دینار اور سونا چاندی جہنم میں تپا کر قیامت کے دن ان کے گلے کا ہار بنادیے جائیں گے۔ ان بخیلوں اور کنجوسوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقتاً اللہ ہی زمین و آسمان کی میراث کا وارث ہے۔ اگر یہ پلٹ کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ زمین کی ملکیت کا دعو ٰی کرنے اور دنیا کا مال و متاع جمع کرنے والے ان سے پہلے لوگ کہاں ہیں؟ ان پر بھی وقت آئے گا جب ان کی جائیداد کا وارث دوسرابنے گا تو پھر کیوں نہ یہ اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کے مجبور بندوں پر خرچ کیا کریں۔ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَاکُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ [ التوبۃ:35] ” روز قیامت مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے ان کی پیشانیوں‘ پہلوؤں اور پیٹھوں پر داغا جائے گا۔ یہ ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تم چکھو جو تم جمع کرتے تھے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ () قَالَ مَامِنْ رَجُلٍ لَا یُؤَدِّیْ زَکَاۃَ مَالِہٖ إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ عُنُقِہٖ شُجَاعًا ثُمَّ قَرَأَ عَلَیْنَا مِصْدَاقَہُ مِنْ کِتَاب اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ﴿وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ﴾ الآیۃَ) [ رواہ الترمذی : کتاب : تفسیرالقرآن، باب ومن سورۃ آل عمران] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو نبی کریم (ﷺ) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت یہ مال اس کی گردن میں گنجا سانپ بنا کر ڈالے گا۔ پھر آپ نے کتاب اللہ سے اس آیت کی تلاوت کی ﴿وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۔“ مسائل : 1۔ بخیل کے لیے اس کا بخل کرنا کبھی بہتر نہیں ہوگا۔ 2۔ رزق حلال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔  3۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خرچ کرتے رہنا چاہیے۔ 4۔ قیامت کے دن بخیل کا مال سانپ بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔  5۔ زمین و آسمان کی حقیقی اور دائمی ملکیت اللہ ہی کی ہے۔ 6۔ اللہ ہر کسی کے اعمال سے باخبر ہے۔  تفسیربالقرآن : بخل اور بخیل کا انجام : 1۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری۔ (التوبۃ:34) 2۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ باقی نہیں رکھ سکتا۔ (ھمزہ :3) 3۔ بخیل کے مال کے ذریعے ہی اسے سزادی جائے گی۔ (التوبۃ:35)