وَلَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ ۚ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ۗ يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور (اے پیغمبر) جو لوگ کفر میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھا رہے ہیں، وہ تمہیں صدمے میں نہ ڈالیں، یقین رکھو وہ اللہ کا ذرا بھی نقصان نہیں کرسکتے، اللہ یہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کوئی حصہ نہ رکھے، اور ان کے لیے زبردست عذاب (تیار) ہے۔
فہم القرآن : (آیت 176 سے 177) ربط کلام : کفار کی سازشوں اور شیطان کے ساتھیوں کی شرارتوں سے دل گیر نہیں ہونا چاہیے انہیں دنیا اور آخرت میں اذیت ناک سزا ملنے والی ہے۔ رسول محترم (ﷺ) نے ہمیشہ منافقوں کے ساتھ درگزر کا رویّہ اختیار کیا اور ہر موقع پر انہیں سمجھاتے رہے تاکہ ان کی دنیا اور آخرت سدھر جائے۔ لیکن وہ سدھرنے کے بجائے شرارتوں اور منافقت میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ آپ کی درگزر اور اعلیٰ ظرفی سے انہوں نے ہمیشہ غلط فائدہ اٹھایا اور ہر نازک موقعہ پر خبث باطن کا اظہار اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز کرتے رہے۔ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کا پلڑا ہلکا رہا جس سے انہیں امید ہوگئی کہ اب مسلمان ختم ہوجائیں گے اس لیے سر عام مسلمانوں سے الگ ہوگئے۔ ان کے منافقت میں آگے بڑھنے اور مسلمانوں سے الگ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (ﷺ) کو دلی رنج پہنچا کہ یہ کیسے ناعاقبت اندیش اور بدنصیب لوگ ہیں؟ جو سدھرنے کی بجائے نافرمانیوں میں آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں اس پر آپ کو تسلی دی گئی کہ میرے نبی! اطمینان خاطر رکھو کیونکہ آپ کا کام تو فقط سمجھانا ہے جس میں آپ نے کسی غفلت کا ارتکاب نہیں کیا۔ یہ جو چاہیں کرلیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے چاہتا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رہے۔ بلاشبہ جو لوگ ایمان کے مقابلے میں کفر کو ترجیح دیتے ہیں وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ان کے لیے عظیم اور اذیت ناک عذاب ہوگا۔ مسائل :1۔ کفار کی سرگرمیاں رسول محترم (ﷺ) کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ 2۔ ایمان کے بجائے کفر کو ترجیح دینے والے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔