سورة الفتح - آیت 15

سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب تم (خیبر کی) غنیمتیں لینے چلو گے تو یہی لوگ (جوحدیبیہ میں) پیچھے رہ گئے تھے آپ سے آکرضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ جانے دیجئے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں ان سے کہہ دیجئے کہ تم ہرگز نہیں ہمارے ساتھ چل سکتے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اسی طرح فرمادیا ہے اس پر یہ لوگ کہیں گے (نہیں بلکہ) تم ہم سے حسد کررہے ہو (حالانکہ بات یہ نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ اصل بات کو کم ہی سمجھتے ہیں (٣)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت15سے16) ربط کلام : منافق اور بہانہ ساز لوگ مشکل وقت میں پیچھے رہتے ہیں اور مفاد کے وقت آگے آگے ہوتے ہیں۔ نبی (ﷺ) کے دور کے منافقین کا یہی کردار تھا جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ اسی سورت کی آیت 10کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ دنیا میں اجر عظیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجاہدین کو فتح سے سرفراز فرمائے گا اور مال غنیمت سے ہمکنار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے مقام پر بیعت کرنے و الوں کو مال غنیمت کی خوشخبری دینے کے ساتھ اس موقعہ پر پیچھے رہنے والوں کا کردار بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تم غنیمتیں حاصل کرنے کے لیے چلو گے تو جو لوگ اس سے پیچھے رہ گئے ہیں وہ کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت عنایت فرمائیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کے فرمان کو تبدیل کردیں جو ہرگز تبدیل نہیں ہوگا۔ لہٰذا ان سے فرما دیں کہ تم ہمارے ساتھ ہرگز نہیں جا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہی تمہیں اپنے ساتھ لے جانے سے منع کردیا ہے۔ اس پر یا وہ گوئی کریں گے کہ تم تو ہمارے ساتھ حسد کرتے ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ بہت کم حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ حدیبیہ سے پیچھے رہنے والے دیہاتیوں کو یہ بھی فرما دیں کہ عنقریب تمہیں اپنی قوم سے جہاد کرنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑی جنگجو قوم ہے۔ تم ان کے ساتھ شدید جنگ کرو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے۔ اگر تم اس جنگ میں شریک ہو کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین اجر دے گا۔ اگر تم پہلے کی طرح منہ پھیر جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔ جن غنائم کی اس موقعہ پر مسلمانوں کو خوشخبری دی گئی ہے ان کے بارے میں تمام مفسرین کا خیال ہے کہ یہ خیبر کے غنائم ہیں۔ خیبر کا معرکہ صلح حدیبیہ کے ٹھیک تین ماہ بعد پیش آیا۔ یہاں یہودیوں کے بڑے بڑے نو قلعے تھے۔ یہاں وہ یہودی بھی آباد تھے جنہیں بار بار بدعہدی کرنے اور گھناؤنی سازشوں کی وجہ سے مدینہ سے نکال دیا گیا تھا یہ لوگ خیبر میں رہائش پذیر ہوکراسلامی ریاست کے خلاف سازشیں اور شرارتیں کرتے رہتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد اہل مکہ اور اس کے گردو پیش کے قبائل سے قدرے اطمینان حاصل ہوا تو آپ (ﷺ) نے ضروری سمجھا کہ خیبر کے یہودیوں کی سرکوبی کی جائے۔ آپ نے چند مسلمانوں کو چھوڑ کر انہی لوگوں کو شریک سفر کیا جنہوں نے صلح حدیبیہ کے وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ جب آپ (ﷺ) حدیبیہ میں بیعت کرنے والوں کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے تو مدینہ اور اس کے ارد گرد رہنے والے منافق اور کچھ دوسرے لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ ہمیں بھی اس سفر میں شریک کیا جائے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جب اہل مکہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں تو یہودی کس طرح مسلمانوں کا مقابلہ کرسکیں گے اس لیے خیبر کی فتح یقینی ہے۔ اس یقین کی بنا پر صلح حدیبیہ سے پیچھے رہنے والے لوگ آپ (ﷺ) سے باربار التجا کرتے رہے کہ ہمیں بھی اس جنگ میں شریک کیا جائے لیکن آپ نے انہیں اجازت نہ دی۔ آپ نے اس تیز رفتاری کے ساتھ خیبر کی طرف پیش قدمی کی اور اس کا محاصرہ کیا کہ خیبر والوں کو آپ کی آمد کی خبر نہ ہوسکی۔ خیبر کے لوگ صبح کے وقت کھیتی باڑی کے لیے نکلے تو آپ کا لشکر دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ اس موقع پر آپ (ﷺ) نے اس آیت کی تلاوت کی اور ارشاد فرمایا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ () أَتَی خَیْبَرَ لَیْلاً وَکَانَ إِذَا أَتَی قَوْمًا بِلَیْلٍ لَمْ یُغِرْ بِہِمْ حَتَّی یُصْبِحَ فَلَمَّا أَصْبَحَ خَرَجَتِ الْیَہُودُ بِمَسَاحِیہِمْ وَمَکَاتِلِہِمْ فَلَمَّا رَأَوْہُ قَالُوا مُحَمَّدٌ وَاللَّہِ مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیسُ فَقَال النَّبِیُّ () خَرِبَتْ خَیْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِین) (رواہ البخاری : باب غزوۃ خیبر) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) رات کے وقت خیبر میں داخل ہوئے۔ آپ کا معمول تھا کہ جب بھی کسی قوم کی طرف رات کے وقت پیش قدمی کرتے تو صبح تک حملہ نہ کرتے۔ جب صبح ہوئی تو یہودی اپنے اپنے بیلچے اور کلہاڑے لے کر نکلے۔ انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ اللہ کی قسم محمد (ﷺ) لشکر سمیت آچکے ہیں۔ نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا کہ خیبر والے تباہ وبرباد ہوگئے۔ جب بھی ہم کسی قوم پر داخل ہوتے ہیں تو ڈرائے جانے والوں کی صبح بری ہوتی ہے۔“ یہودی خوف زدہ ہو کر اپنے قلعوں میں بند ہوگئے۔ اور ان کے پاس بیس ہزار جنگجو فوج کا لشکر تھا لیکن مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ مسلمانوں نے قلعہ قموص کے سوا باقی قلعے یکے بعد دیگرے فتح کرلیے۔ قلعہ قموص کا نگران خیبرکا مشہور پہلوان اور جنگجو مرحب تھا جس کی کمان میں یہودیوں نے بیس دن تک اپنا دفاع کیا جس وجہ سے باربار مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا۔ قریب تھا کہ مسلمانوں میں مایوسی پیدا ہوجائے لیکن نبی معظم (ﷺ) نے مسلمانوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے اعلان فرمایا کہ کل صبح ایسے شخص کو پرچم دیا جائے گا جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں اور وہ اللہ ا وراس کے رسول کو پسند کرتا ہے۔ (رواہ مسلم : باب مِنْ فَضَائِلِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ) بالآخر قلعہ قموص فتح ہوا اور یہودیوں کی زمین، باغات اور بہت سامال مسلمانوں کے ہاتھ آیا جسے مجاہدین اور حبشہ کے مہاجرین میں تقسیم کیا گیا۔ جنگجو قوم کے ساتھ مقابلہ : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے : (الفتح :16) ” ان پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں تم کو ان سے جنگ کرنا ہوگی یا وہ مطیع ہوجائیں گے اس وقت اگر تم نے حکم جہاد کی اطاعت کی تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا، اور اگر تم پھر اسی طرح منہ موڑ گئے جس طرح پہلے موڑ چکے ہو تو اللہ تم کو دردناک سزا دے گا۔“ مفسرین نے جنگجو قوم سے مراد ہوازن قبیلہ کے لوگ لیے ہیں۔ ان کے ساتھ جو معرکہ ہوا وہ غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْقَانِتِ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَفْتُرُ مِنْ صِیَامٍ وَّلَا صَلٰوۃٍ حَتّٰی یَرْجِعَ الْمُجَاہِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) (رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اس شخص کی طرح ہے، جو مسلسل روزے رکھتا ہے اور اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا اور قیام کرتا ہے۔ نفلی روزے اور نماز میں کوتاہی نہیں کرتا۔ حتی کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا مجاہد واپس لوٹ آئے۔“ مسائل: 1۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بہترین اجرعطا فرمائے گا۔ 2۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ پھیر لیا اللہ تعالیٰ اسے اذّیت ناک سزا دے گا۔ 3۔ منافق غنیمت حاصل کرنے کے لیے جہاد میں شریک ہوتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ تفسیر بالقرآن: جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے انہیں بہترین اجر دیا جائے گا : 1۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ایمان کی نشانی ہے۔ (الانفال :1) 2۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت باعث رحمت ہے۔ (التوبہ :71) 3۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ (النور :52) 4۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرنے والے کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (النساء :13) 5۔ اطاعت رسول سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ( آل عمران :31) 6۔ آپ (ﷺ) کی اطاعت ہدایت کا منبع ہے۔ (النور :54) 7۔ جنت میں داخلے کا معیار آپ (ﷺ) کی اطاعت ہے۔ ( الفتح :17) 8۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی رسول اللہ کی اطاعت میں ہے۔ (آل عمران :132) 9۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے انبیاء، صلحاء شہداء، اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ (النساء :69)