وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُم مِّنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
بلاشبہ ہم تمہارے گردوپیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو تباہ وبرباد کرچکے ہیں اور ہم نے طرح طرح سے ان کو سمجھایا تاکہ وہ باز آجائیں۔
فہم القرآن: (آیت 27 سے 28) ربط کلام : قوم عاد کا انجام بیان کرنے کے بعد اہل مکہ کو ایک دفعہ پھر انتباہ کیا گیا۔ رب ذوالجلال کا فرمان ہے۔ اے مکہ والو! ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو تباہ کیا اور ان کے سامنے بار بار اپنی آیات پڑھیں تاکہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ آئیں۔ جب وہ اپنے رب کی طرف نہ پلٹے تو اس نے انہیں نیست و نابود کردیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں نیست و نابود کیا تو جنہیں وہ ” اللہ“ کے سوا مشکل کشا سمجھتے تھے اور ان کو اللہ کے قرب کا ذریعہ بناتے تھے وہ ان کی مدد نہ کرسکے۔ قوم عادجب ” اللہ“ کے عذاب میں مبتلا ہوئی تو انہیں اپنے معبود یاد نہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے معبودوں کو اپنے قرب کا ذریعہ نہیں بنایا تھا۔ مشرک اپنے معبودوں کے بارے میں جو کچھ سمجھتے اور کہتے ہیں وہ جھوٹ ہے اور ان کا خود ساختہ عقیدہ باطل ہے جو عذاب کے وقت قوم عاد کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا انجام اور ان کا اپنے معبودوں کے بارے میں روّیہ بیان کیا ہے۔ قوم ثمودہو یا اہل مکہ یا کوئی بھی ہو مشکل کے وقت ان کے کوئی کام نہیں آسکتا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو وہ اپنے معبودوں کو بھول جاتی ہے۔ یہی مشرک کی عادت اور فطرت ہے کہ وہ آسانی کے وقت اپنے رب کو بھول جاتا ہے اور انتہائی مشکل کے وقت اپنے معبودوں کو فراموش کردیتا ہے۔ قرآن مجید میں جن قوموں کی تباہی کا ذکر ہوا ہے وہ اہل مکہ سے دور نہیں تھیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان کے آس پاس کی کئی اقوام کو ہلاک ہے۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) لأَبِی یَا حُصَیْنُ کَمْ تَعْبُدُ الْیَوْمَ إِلَہًاقَالَ أَبِی سَبْعَۃً سِتًّا فِی الأَرْضِ وَوَاحِدًا فِی السَّمَاءِ قَالَ فَأَیُّہُمْ تَعُدُّ لِرَغْبَتِکَ وَرَہْبَتِکَ قَالَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ قَالَ یَا حُصَیْنُ أَمَا إِنَّکَ لَوْ أَسْلَمْتَ عَلَّمْتُکَ کَلِمَتَیْنِ تَنْفَعَانِکَ قَالَ فَلَمَّا أَسْلَمَ حُصَیْنٌ قَالَ یَا رَسُول اللَّہِ عَلِّمْنِی الْکَلِمَتَیْنِ اللَّتَیْنِ وَعَدْتَنِی فَقَالَ قُلِ اللّٰہُمَّ أَلْہِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی) (رواہ الترمذی : باب جامِعِ الدَّعَوَاتِ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) ) ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے میرے باپ کو فرمایا : اے حصین آپ کتنے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں میرے باپ نے کہا سات کی جس میں چھ زمین میں اور ایک آسمان میں ہے۔ آپ نے فرمایا : خوف اور امید کے وقت کس کو پکارتا تھا اس نے کہا جو آسمانوں میں ہے۔ آپ نے فرمایا : اے حصین اگر تو اسلام لے آئے تو میں تجھے دو کلمات ایسے سکھلاؤں گا جو تیرے لیے انتہائی مفید ہوں گے جب حصین اسلام لے آئے تو انہوں نے عرض کی اللہ کے رسول مجھے وہ کلمات سکھلادیں جن کا آپ نے وعدہ فرمایا تھا آپ نے کہا کہہ اے اللہ مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما۔“ مسائل: 1۔ نبی (ﷺ) کی نبوت سے پہلے مکہ کے گرد و پیش کی کئی بستیوں کو تباہ کردیا گیا۔ 2۔ مشرک جن معبودوں کو اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں مشکل کے وقت انہیں بھول جاتے ہیں۔ 3۔ مشرکانہ عقیدہ سراسر جھوٹ اور اپنی طرف سے بنایا ہوا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انتہائی مشکل میں مشرک کا اپنے معبودوں کے بارے میں وطیرہ : 1۔ جب دریا میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تم اللہ کے سواسب کو بھول جاتے ہو۔ (بنی اسرائیل :67) 2۔ انہوں نے خیال کیا کہ وہ گھیرے میں آگئے ہیں تو خالصتًا اللہ کو پکارتے ہیں۔ (یونس :22) 3۔ جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتًا اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت :65) 4۔ جب انہیں موجیں سائبان کی طرح ڈھانپ لیتی ہیں تو خالص اللہ کو پکارتے ہیں۔ (لقمان :32) 5۔ مشرک اپنے معبودوں کے دشمن بن جائیں گے۔ (الاحقاف :6)