أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
یہی وہ لوگ ہیں جن کے حق میں عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے اور جنوں اور انسانوں کی جو امتیں ان سے پہلے گزرچکی ہیں یہ بھی ان میں شامل ہوں گے کیونکہ یہ سب لوگ زیاں کار تھے
فہم القرآن: (آیت 18 سے 19) ربط کلام : جو لوگ اللہ کی توحید کا انکار اور اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ جو لوگ ” اللہ“ کی توحید اور اپنے والدین کی نافرمانی کریں گے وہ لوگ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کا فرمان اسی طرح سچ ثابت ہوگا جس طرح اس کا فرمان ان سے پہلے نافرمان جنوں اور انسانوں پر سچ ثابت ہوا جس کے نتیجہ میں وہ دنیا میں اپنے رب کے غضب کا شکار ہوئے اور آخرت میں ہمیشہ ہمیش نقصان میں رہیں گے۔ نقصان سے مراد جنت سے محرومی ہے اور جہنم میں داخل کیا جانا ہے۔ اس کا اصول ہے کہ ” کوئی جیسا کرے گا ویسا بھرے گا۔“ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کی پوری، پوری سزا اور جزا دے گا۔ کسی کے ساتھ کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا۔ دنیا دار لوگ دنیا میں اچھے اعمال کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے وسائل میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں نیک نامی سے نوازتا ہے لیکن یہ لوگ آخرت کے اجر سے محروم ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں صحیح العقیدہ اور صالح کردار رکھنے والے لوگ دنیا میں بھی صلہ پاتے ہیں اور آخرت میں اَن گنت اور لامحدود اجر پائیں گے۔ دنیا کے اجر میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ نیک لوگوں کو دل کے اطمینان سے نوازا جاتا ہے۔ ان سے کوئی چیز چھن جائے تو حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ انہیں عطا کیا جائے تو وہ اپنے آپ سے باہر نہیں ہوتے۔ گویا کہ وہ ہر حال میں اپنے رب پر راضی اور مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ایسی نعمت ہے کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ﴿قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا اَلَّـذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُـمْ فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَهُـمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّـهُـمْ يُحْسِنُـوْنَ صُنْعًا اُولٰئِكَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيَاتِ رَبِّـهِـمْ وَلِقَآئِه فَحَبِطَتْ اَعْمَالُـهُـمْ فَلَا نُقِيْـمُ لَـهُـمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ذٰلِكَ جَزَآؤُهُـمْ جَهَنَّـمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوا اٰيَاتِىْ وَرُسُلِىْ هُزُوًا اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَـهُـمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا خَالِـدِيْنَ فِيْـهَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْـهَا حِوَلًا﴾ (الکہف : 103تا108) ” اے نبی ان سے فرما دیں کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اعمال کے اعتبار سے نقصان پانے والے کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ ہیں جن کی دنیا کی زندگی میں ہی ساری محنت ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیش ہونے کا یقین نہ کیا۔ ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے قیامت کے دن ہم انہیں کوئی وزن نہیں دیں گے۔ ان کی سزا جہنم ہے اس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اس وجہ سے کہ وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ مذاق کرتے رہے۔ یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغات ہوں گے۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اس سے نکلنے کی کبھی خواہش نہیں کریں گے۔“ مسائل: 1۔ نافرمان لوگوں پر ” اللہ“ کا عذاب برحق ثابت ہوتا ہے۔ 2۔ بے شمار جن اور لاتعداد انسان دنیا میں ” اللہ“ کے عذاب میں گرفتار ہوئے اور آخرت میں جہنم میں داخل ہوں گے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔ کسی پر کسی اعتبار سے ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : 1۔ اپنے مالوں اور اولادوں کے بارے میں سستی کرنے والے دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ ( المنافقون :9) 2۔ جو لوگ مساجد کو برباد کرتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں ذلّت اٹھائیں گے۔ ( البقرۃ:114) 3۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے۔ ( ہود :21) 4۔ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پائیں گے۔ ( النحل :109)