سورة الجاثية - آیت 12

اللَّهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے سمندر کو تمہارے لیے مسخر کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اسکا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 12 سے 13) ربط کلام : مجرموں کو عذاب کی خوشخبری سنانے کے بعد ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مرتبہ لیل ونہار کی گردش چاند، سورج کا آنا جانا بارش کا برسنا اور کشتیوں کا سمندر میں چلناان سب کو اپنی قدرت کی نشانیاں بتلایا ہے۔ لیکن جہاں بھی ان چیزوں کا ذکر کیا ہے انداز اور استدلال جدا جدا ہے۔ غور فرمائی ! اس مقام پر کشتیوں کا سمند میں چلنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کے ساتھ منسوب کیا اور فرمایا ہے کہ یہ کشتیاں میرے حکم کے ساتھ سمندر میں چلتی ہیں تاکہ تم سمندر سے اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہو ! دنیا میں کشتیوں اور بحری جہازوں کے کاروبار کے ساتھ لاکھوں نہیں کروڑوں انسان وابستہ ہیں۔ جو کشتیوں کے ذریعے محنت مزدوری کرتے ہیں اور سمندرسے مچھلیاں اور ہیرے جواہرات نکال کر اربوں، کھربوں روپے کما رہے ہیں مگر ان کی اکثریت کفار کی ہے۔ جو مسلمان اس کاروبار کے ساتھ وابستہ ہیں ان کی غالب اکثریت بےدین طبقہ پر مشتمل ہے۔ حالانکہ سمندر میں کاروبار کرنے والے جانتے ہیں کہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو جدیدٹیکنالوجی کے باوجود غوطہ زنی اور ماہی گیری کاسارے کا سارا نظام معطل ہوجاتا ہے۔ اس وقت پرلے درجے کا کافر اور مشرک بھی صرف اور صرف ایک رب کو پکارتا ہے۔ لیکن جونہی ان لوگوں کو سمندری طوفان سے نجات ملتی ہے تو پھر شرک و کفر کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف سمندروں اور کشتیوں کو انسان کے تابع کیا ہے بلکہ اس نے جو کچھ بھی زمین و آسمانوں میں پیدا کیا ہے۔ سب کو انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ نباتات ہوں یا جمادات، حیوانات ہوں یا کوئی اور چیز یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مقرب ترین فرشتے کو بھی انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار ہوجائے کیونکہ شکر گزار ہی اس کے تابعدار ہوتے ہیں۔ تابعدار اور شکر گزار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں پر غور کرے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر اور دریاؤں کو انسان کے تابع کردیا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے کشتیوں کو انسان کے اس لیے تابع کیا ہے تاکہ انسان سمندر سے اپنے رب کا فضل تلاش کرے اور اس کا شکر ادا کرے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی ہر چیز انسان کی خدمت میں لگا رکھی ہے۔ 4۔ قدرت کی نشانیوں میں اللہ تعالیٰ کی پہچان پائی جاتی ہے لیکن اس قوم کے لیے جو غور وفکر کرتی ہے۔ تفسیربالقرآن : شکر گزاری کا حکم اور اس کے فوائد : 1۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمھیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ:152) 2۔ اللہ نے تمھیں دل، آنکھیں اور کان دیے تاکہ تم شکرادا کرو۔ (السجدۃ:9) 3۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزار بندوں میں شامل ہوجائیے۔ (الزمر :66) 4۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (آل عمران : 144۔145) 5۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سماعت، بصارت اور دل بنایا تاکہ تم شکر کرو۔ (النحل :78) 6۔ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ:172) 7۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت :17) 8۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ (ابراہیم :7) 9۔ شکر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ (الزمر :7) 10۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو بہتر جزا دیتا ہے۔ (القمر :35) 11۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدردان ہے۔ (النساء :147) 12۔ جو شخص شکر کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو ناشکری کرتا ہے میرا رب اس سے بے پروا ہے۔ (النمل :40)