فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
پھر ایسا ہوا کہ آدم نے اپنے پروردگار کی تعلیم سے چند کلمات معلوم کرلیے (جن کے لیے اس کے حضور قبولیت تھی) پس اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی اور بلاشبہ وہی ہے جو رحمت سے درگزر کرنے والا ہے اور اس کی درگزر کی کوئی انتہا نہیں
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) کا سنبھلنا اور اپنے رب سے معافی کا خواستگار ہونا اور رب کریم کا انہیں معاف فرما دینا۔ جب آدم (علیہ السلام) کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو نہ صرف وہ اپنے رب کے حضور معافی کے خوستگار ہوئے بلکہ معافی کا طریقہ، انداز اور الفاظ کی درخواست بھی کر رہے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی خطا کو اپنے بے پایاں کرم سے معاف کر دے۔ اس مقام پر تینوں بڑی مخلوقات کی فطرت کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔ ملائکہ نے معمولی لغزش پر لفظ ” سبحان“ کے ذریعے معذرت کی اور انہیں اسی طرح تقرب حاصل رہا۔ شیطان اپنے جرم پر ڈٹا رہا تو ہمیشہ کے لیے پھٹکار کا مستحق اور راندۂ درگاہ ہوا۔ آدم (علیہ السلام) اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہوئے تو ان کی معذرت نے شرف قبولیت پایا۔ کیونکہ ربِّ کریم ہمیشہ سے توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ جب بھی میری بارگاہ میں کوئی معذرت کا دامن پھیلائے گا تو میں اسے معاف ہی کرتا رہوں گا۔ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَّغْرِبِھَا تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ) (رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء، باب إستحباب الإستغفار والإستکثار منہ) ” جس نے مغرب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے تو بہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ إِِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَیَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یقینًا اللہ عزوجل بندے کی توبہ قبول کرتارہتا ہے جب تک جان حلق تک نہ پہنچ جائے۔“ بعض لوگوں نے اپنا من گھڑت عقیدہ ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ نبی محترم {ﷺ}کے وسیلہ سے قبول ہوئی تھی۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کا بالکل کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ قرآن مجید نے سورۃ الاعراف : 22، 23میں یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ درخت کا پھل چکھنے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوّا کا لباس اتر گیا، برہنہ ہوجانے کی بنا پر وہ اپنی شرم گاہوں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپ رہے تھے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم ! کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب جانے سے نہیں روکا تھا؟ اگر حضرت آدم (علیہ السلام) نے نبی محترم {ﷺ}کا وسیلہ پیش کیا ہوتا تو قرآن مجید اس کا ضرور تذکرہ کرتا۔ کیا اللہ تعالیٰ نے اصل حقیقت کو اپنے بندوں سے چھپا لیا ہے ؟ (نعوذ باللہ من ذالک) یہ ایسا الزام اور بہتان ہے جس کا ایک مومن تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جن کلمات کے ذریعے توبہ قبول ہوئی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے وہ کلمات اپنے رب سے سیکھ لیے جو یہ تھے : ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ﴾ (الأعراف :23) ” اے ہمارے رب ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“ اللہ کا اپنے بندوں کو معاف کرنے کے لیے قسمیں اٹھانا : (فَأَقُولُ یَا رَبِّ اءْذَنْ لِی فیمَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَیَقُولُ وَعِزَّتِی وَجَلاَلِی وَکِبْرِیَاءِی وَعَظَمَتِی لأُخْرِجَنَّ مِنْہَا مَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ) (رواہ البخاری : باب کلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ الأَنْبِیَاءِ وَغَیْرِہِمْ ) ” آپ {ﷺ}فرماتے ہیں میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار ! مجھے توحید پرست لوگوں کے متعلق سفارش کی اجازت دیجیے۔ اللہ فرمائیں گے مجھے میری عزت، جلال، کبریائی اور عظمت کی قسم ! میں توحید پرستوں کو خود جہنم سے نکالوں گا۔“ مسائل: 1۔ انسان کو اپنے رب کے حضور توبہ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ رحم کرنے اور توبہ قبول کرنے والا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ غفور ہے۔ (الحجر :49) 2۔ اللہ تعالیٰ رحیم ہے۔ (الزمر :53) 3۔ اللہ تعالیٰ رحمن ہے۔ (الفاتحہ :2) 4۔ اللہ ہی بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی :25) 5۔ اللہ بخشنے اور رحمت کرنے والا ہے۔ (الکہف :58) 6۔ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔ (الاعراف :156) 7۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰس :43) 8۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر :56) 9۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر :53) 10۔ اللہ تعالیٰ کی مومنوں پر خاص رحمت ہوتی ہے۔ (الاحزاب :43)