الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ
اس دن متقین کے سواتمام جگری دوست آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے
فہم القرآن: (آیت 67 سے 70) ربط کلام : عیسائیوں میں شرک کی ابتدا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی محبت میں غلو کی بنا پر ہوئی۔ جس وجہ سے قیامت کے دن کے بارے میں بتلایا ہے کہ اس دن متقین کی دوستی کے علاوہ کسی کی دوستی اور محبت باقی نہیں رہے گا۔ قیامت کے لمحات کے بارے میں قرآن مجید نے بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ قیامت کے تین مراحل جب کوئی کسی کو یاد نہیں کریگا : (عَنْ عَائِشَۃ أَنَّہَا ذَکَرَتِ النَّارَ فَبَکَتْ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَا یُبْکِیک قالَتْ ذَکَرْتُ النَّارَ فَبَکَیْتُ فَہَلْ تَذْکُرُونَ أَہْلِیکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَمَّا فِی ثَلاَثَۃِ مَوَاطِنَ فَلاَ یَذْکُرُ أَحَدٌ أَحَدًا عِنْدَ الْمِیزَانِ حَتَّی یَعْلَمَ أَیَخِفُّ میزَانُہُ أَوْ یَثْقُلُ وَعِنْدَ الْکِتَاب حینَ یُقَالُ ﴿ہَاؤُمُ اقْرَءُ وا کِتَابِیَہْ﴾ حَتَّی یَعْلَمَ أَیْنَ یَقَعُ کِتَابُہُ أَفِی یَمِینِہِ أَمْ فِی شِمَالِہِ أَمْ مِنْ وَرَاءِ ظَہْرِہِ وَعِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا وُضِعَ بَیْنَ ظَہْرَیْ جَہَنَّمَ)[ رواہ ابوداؤد : باب فی ذکر المیزان] ” سیدہ عائشہ (رض) ایک دن جہنم کو یاد کر کے رورہی تھی رسول اللہ (ﷺ) نے پوچھا اے عائشہ! تجھے کس چیز نے رولایا ہے۔ سیدہ عائشہ نے کہا جہنم کی آگ یاد آئی تو میں رو پڑی۔ کیا قیامت کے دن آپ اپنے اہل وعیال کو یاد رکھ پائیں گے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تین مواقع ایسے ہیں جن میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔1 ۔اعمال تولے جانے کے وقت جب تلک یہ نہ پتہ چل جائے کہ اس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا یا ہلکا۔2 ۔نامہ اعمال دئیے جانے کے وقت جب کہنے والا کہے آؤ میرے نامہ اعمال کو پڑھ کر دیکھو حتٰی کہ اسے علم ہوجائے کہ اس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جا رہا ہے یا پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں 3 ۔جب جہنم پر پل صراط کو رکھا جائے گا۔“ ” اس دن گنہگار آرزو کرے گا کہ کاش! اپنے بیٹے، اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے کنبے والوں کو جو اس کو پناہ دیا کرتے تھے اور زمین کو فدیے میں دے دے اور خود نجات پاجائے“ (المعارج : 11تا14) ” اس دن آدمی اپنے بھائی، اپنے والدین، اپنی بیوی، اور اپنی اولاد سے بھاگ جائے گا۔“ (عبس : 34تا36) متقین کی دوستی اور محبت قائم رہے گی : اس میں کوئی شک نہیں کہ قیامت کے دن کافر اور مشرک کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قیامت کے دن کچھ مراحل ایسے ہوں گے جب متقین تو درکنار انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی نفسا نفسی کے عالم میں ہوں گے۔ لیکن جب لوگوں کا حساب و کتاب ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ متقین کی سفارشات کو ایسے لوگوں کے حق میں قبول فرمائے گا جو کفر و شرک سے بچے ہوئے ہوں گے۔ ان کے لیے ان کے فوت ہونے والے نابالغ بچوں اور کچھ لوگوں کی سفارش کو قبول کیا جائے گا جن میں آخری اور سب سے بڑی سفارش نبی کریم (ﷺ) کی ہوگی۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب کے تعلقات ختم ہوجائیں گے۔ 2۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب لوگ آپس میں دشمن بن جائیں گے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ متقین کو ارشاد فرمائے گا۔ اے میرے بندو! تم اور تمہاری نیک بیویاں جنت میں تشریف لے جاؤ۔ تفسیربالقرآن : قیامت کے دن اللہ کے بندوں کو کوئی خوف نہیں ہوگا بلکہ ملائکہ انہیں سلام کریں گے : 1۔ اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ:38) 2۔ ا ولیاء اللہ پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (یونس :62) 3۔ اللہ اور آخرت پر یقین رکھنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ (المائدۃ:69) 4۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف :13) 5۔ رب کے سامنے اپنے آپ کو مطیع کردینے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ:112) 6۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں توانھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل :32) 7۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمھارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق :34)