سورة الزخرف - آیت 63

وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب عیسیٰ کھلی نشانیاں لے کرآئے تو اس نے کہا لوگو میں تمہارے پاس حکمت لے کرآیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے سامنے بعض ان باتوں کی حقیقت واضح کردوں جن میں تم اختلاف کررہے ہو سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: (آیت 63 سے66) ربط کلام : اس آیت سے پہلے عیسیٰ ( علیہ السلام) کا ذکر ہورہا تھا۔ اب عیسیٰ ( علیہ السلام) کی تشریف آوری اور ان کی دعوت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جب عیسیٰ ( علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو انہوں نے بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں حکمت کی باتیں سکھلاؤں اور تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں جن میں تم اختلاف کرتے ہو۔ بس اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری تابعداری کرؤ۔ یقین جانو کہ ” اللہ“ ہی میرا اور تمہارا رب ہے صرف اسی کی عبادت کرو ! یہی صراط مستقیم ہے۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ہدایت کے باوجود بنی اسرائیل کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ جن لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختلاف کیا انہوں نے ظلم کیا اس لیے انہیں اذیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ ظالم لوگوں کو صرف اس بات کا انتظار ہے کہ ان پر قیامت برپا ہوجائے وہ ان پر اس طرح ٹوٹ پڑے گی کہ انہیں اس کی خبر تک نہ ہوگی۔ اہل مکہ کا یہ سوال تھا کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پوجا کی جاتی ہے تو کیا عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی جہنّم میں جائیں گے ؟ اس بات کی وضاحت کے لیے عیسیٰ ( علیہ السلام) کی تعلیم کا حوالہ دیا ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سوا اپنی یا کسی دوسرے کی عبادت کا سبق نہیں دیتے تھے۔ وہ تو زندگی بھر یہی تلقین کرتے رہے کہ لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو! وہ میرا اور تمہارا رب ہے۔ صرف ایک رب کی عبادت کرنا ہی صراط مستقیم ہے۔ لیکن لوگوں نے ان کی زندگی اور ان کے بعد عقیدہ توحید اور دوسرے مسائل: میں اختلاف کیا۔ حالانکہ عیسیٰ ( علیہ السلام) ان اختلافات کو مٹانے اور سلجھانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔ مگر اس کے باوجود اہل کتاب نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ عقیدہ توحید اور دین کے بنیادی مسائل: میں اختلاف پیدا کرنا پرلے درجے کا ظلم ہے۔ دین کے نام پر ظلم کرنے والوں کو جتنا بھی سمجھایا جائے ان کی اکثریت اس ظلم سے باز نہیں آتی۔ اس لیے ارشاد ہوا ہے کہ یہ لوگ تو صرف قیامت کے منتظر ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ قیامت اس قدر اچانک برپا ہوگی کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ () قَالَ تَفَرَّقَتِ الْیَہُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِینَ أَوِ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً وَالنَّصَارَی مِثْلَ ذَلِکَ وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً )[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ] ” رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کہ یہودی اپنے دین میں اختلاف کرنے کی وجہ سے اکہتر فرقے ہوئے، عیسائی اختلاف کی بنا پر بہتر گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو حکمت اور واضح دلائل کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا۔ 2۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر ہر قسم کا شرک اور ظلم چھوڑ دو اور میری اتباع کرو۔ 3۔ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہیے کیونہ وہ سب کا پیدا کرنے والا اور پالنہار ہے۔ 4۔ صراط مستقیم کی نشانی یہ ہے کہ صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت کی جائے۔ 5۔ بنی اسرائیل نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور لوگوں کو انتشار کا شکار کیا۔ 6۔ جو لوگ دین میں اختلاف اور امت میں انتشار ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن اذیت ناک سزا دے گا۔ 7۔ قیامت اچانک برپا ہوجائے گی اور لوگوں کو اس کے آنے کی خبر نہ ہوپائے گی۔