فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
پھر (ایسا ہوا کہ) شیطان کی وسوہ اندازی نے ان دونوں کے قدم ڈگمگا دیے، اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جیسی کچھ (راحت و سکون کی) زندگی بسر کر رہے تھے اسے نکلنا پڑا۔ خدا کا حکم ہوا "یہاں سے نکل جاؤ۔ تم میں سے ہر وجود دوسرے کا دشمن ہے" اب تمہیں (جنت کی جگہ) زمین میں رہنا ہے اور ایک خاص وقت تک کے لیے (جو علم الٰہی میں مقرر ہوچکا ہے) اس سے فائدہ اٹھانا ہے
فہم القرآن ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) سے شیطان کا پہلا انتقام۔ حکم تھا کہ اے آدم! تم میاں، بیوی نے اس درخت کے قریب نہیں جانا۔ اس کے باوجود دونوں نے درخت کا پھل کھالیا۔ اس طرح آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ کو بالآخر شیطان پھسلانے میں کامیاب ہوا۔ جس کی پاداش میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کو جنت سے نکل جانے کا حکم صادر ہوا۔ ان کے ساتھ ہی شیطان کو بھی زمین پر دھتکار دیا گیا۔ خروج کا حکم دیتے ہوئے پھر فرمایا تم ایک دوسرے کے دشمن ہو لہٰذا ایک مدت کے لیے اب زمین ہی تمہارے لیے جائے قرار ہوگی۔ سورۃ الاعراف کی آیت 189میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت حوا {علیہ السلام}کو آدم (علیہ السلام) سے ہی پیدا کیا گیا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) شیطان کے پھسلاوے میں آ کر اللہ تعالیٰ کا حکم بھول گئے اور اس درخت سے نہ بچ سکے۔ یہ واقعہ بیان فرما کر شیطان کے ہتھکنڈوں اور اس کے خوشنما مغالطوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آدم (علیہ السلام) کے بیٹے اور بیٹیاں شیطان کی فریب کاریوں میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔ ان سے وہی خوش نصیب بچ سکیں گے جنہوں نے اپنے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) اور اپنی والدہ حضرت حوا [ کے واقعہ کو پوری غیرت کے ساتھ ذہن میں رکھا اور شیطان کو اپنا دشمن سمجھا : (وَنَسِیَ اٰدَمُ فَنَسِیَتْ ذُرِّیَتُہٗ وَخَطِئَ اٰدَمُ فَخَطِئَتْ ذُرِّیَتُہٗ) (رواہ الترمذی : تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الأعراف) ” آدم (علیہ السلام) بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی رہے گی آدم (علیہ السلام) سے خطا ہوئی اس کی اولاد بھی خطا کرے گی۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ {رض}أَنَ النَّبِیَّ {ﷺ}قَالَ۔۔إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب الإعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ )” حضرت علی بن حسین {رض}بیان کرتے ہیں نبی کریم {ﷺ}نے فرمایا یقیناً شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔“ بعض مفسرین نے علمی موشگافیوں کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے چونکہ شیطان کا جنت میں داخلہ ممنوع تھا اس لیے وہ سانپ کی شکل اختیار کرکے جنت میں داخل ہوا اور اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حواء کو ورغلایا۔ حالانکہ سانپ بننے کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کیونکہ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت دی ہے کہ وہ انسان کے جسم میں داخل ہوئے بغیر اس پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے اس لیے شیطان کا سانپ بننا ضروری نہیں اور نہ ہی کسی حدیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}قَالَ لَمَّا صَوَّرَ اللّٰہُ اٰدَمَ فِی الْجَنَّۃِ تَرَکَہٗ مَاشَآء اللّٰہ أَنْ یَّتْرُکَہٗ فَجَعَلَ إِبْلِیْسُ یُطِیْفُ بِہٖ یَنْظُرُ مَاھُوَ فَلَمَّا رَآہُ أَجْوَفَ عَرَفَ أَنَّہٗ خُلِقَ خَلْقًا لَایَتَمَالَکُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب، باب خلق الانسان خلقا لایتمالک) ” حضرت انس {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں آدم (علیہ السلام) کی صورت گری کی تو اس کے بعد جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے چاہا اس کو چھوڑے رکھا۔ شیطان ان کے ارد گرد چکر لگانے لگا اور دیکھنے لگا کہ یہ کیا ہے؟ جب اس نے آدم (علیہ السلام) کا پیٹ دیکھا تو اس نے پہچان لیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے آپ پر کنڑول نہیں رکھ سکے گی۔“ مسائل :1۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا کو شیطان نے پھسلادیا تھا۔ 2۔ درخت کا پھل چکھنے کی وجہ سے انہیں جنت سے نکال دیا گیا۔ 3۔ شیطان بنی نوع انسان کا ازلی دشمن ہے۔ 4۔ زمین میں انسان نے ہمیشہ نہیں رہنا۔ تفسیر بالقرآن :آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکالنے کے شیطانی ہتھکنڈے : 1۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دل میں وسوسہ ڈالا اور انہیں پھسلا دیا۔ (الاعراف :20) 2۔ شیطان نے آدم (علیہ السلام) کی غلط رہنمائی کی۔ (الاعراف :22) 3۔ آدم (علیہ السلام) کو ورغلانے کے لیے شیطان نے قسمیں اٹھائیں۔ (الاعراف :21) 4۔ شیطان نے اپنے آپ کو آدم (علیہ السلام) کا خیر خواہ ثابت کیا۔ (الأعراف :21) 5۔ جنت میں ہمیشہ رہنے کا جھانسہ دیا۔ (طہ :120)