وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔
فہم القرآن : ربط کلام : احد میں نبی محترم (ﷺ) کی شہادت کی خبر کی وجہ سے بعض صحابہ بددل ہوئے جس کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ شخصیات تو آنی جانی ہیں اصل مشن تو ان کی دعوت ہے جسے جاری رہنا اور رکھنا چاہیے۔ جنگی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ میدان جنگ میں جونہی فوج کا سپہ سالار زخمی ہو کر گرا۔ اس کے گرنے کے ساتھ ہی بڑے بڑے بہادروں اور جنگجوؤں کے قدم اکھڑ گئے۔ سپہ سالار کا گرنا اور مرنا تو بڑی بات ہے فوج کا پرچم سرنگوں ہوجائے تو لڑنے والوں کے حوصلے پست ہوجایا کرتے ہیں۔ غزوۂ احد میں اسلامی فوج کا پرچم ہی سر نگوں نہیں ہوا بلکہ جلیل القدر صحابہ شہید ہوئے اور رسول کریم (ﷺ) کے بارے میں یہ آواز اٹھی کہ آپ کو شہید کردیا گیا ہے۔ ایسے موقع پر صحابۂ کرام (رض) کے قدم اکھڑنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ آپ (ﷺ) جرنیل ہی نہیں بلکہ جرنیل اعظم تھے۔ فاطمہ (رض) کے باپ اور حسن و حسین (رض) کے نانا ہی نہیں پوری امت کے روحانی باپ تھے۔ بیواؤں کے سرپرست‘ یتیموں کے ملجا اور مسکینوں کے ماویٰ تھے۔ آپ صحابہ کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز‘ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور تھے۔ اگر صحابہ اس خبر پر دل برداشتہ اور غمزدہ نہ ہوتے تو اس سے بڑھ کر دنیا میں کس کے لیے پریشان ہوا جاتا؟ لیکن اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد آپ کی زندگی کا مقصود تھا اگر آپ کے بعد اسلام کا پرچم سرنگوں ہوجائے تو نہ صرف آپ کی محنت دنیا میں ضائع ہوجاتی بلکہ اتنی بڑی جماعت بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اس طرح ایک نہیں دو ناقابل تلافی نقصان ہوتے۔ لہٰذا اس خطاب کا آغاز ہی یہاں سے کیا گیا ہے کہ محمد (ﷺ) خدا نہیں اللہ کا رسول ہے۔ اللہ تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ محمد (ﷺ) تو انسان ہیں اور ہر ذی روح نے اس دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ رسول کا معنی ہی قاصد اور پیغام دینے والاہے۔ جس ہستی نے آپ کو اپنے کام اور پیغام کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ وہ جب چاہے جس حال میں چاہے آپ کو واپس بلا سکتی ہے۔ آپ سے پہلے رسول گزر چکے جن میں کچھ طبعی موت فوت ہوئے اور کچھ شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ کیا آپ کو طبعی موت یا شہادت نصیب ہوجائے تو تم اسلام اور جہاد سے منہ موڑ جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھرجائے گا وہ اللہ تعالیٰ کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس خطاب کا مقصد یہ ہے کہ شخصیات کتنی ہی گراں قدر اور اہم کیوں نہ ہوں اصل تو ان کا مشن ہوا کرتا ہے۔ ذمہ دار اور زندہ قومیں اپنے قائد کے صحیح نظریات‘ اس کا مشن اور ان کے صحت مند کارناموں کو ہمیشہ آگے بڑھاتی ہیں۔ تم میں جو دنیا کے لیے کوشش کرے گا اسے دنیا مل جائے گی اور جو آخرت کے لیے کوشاں ہوگا اسے آخرت میں جزا ملے گی۔ اسی فلسفہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ٹھیک ساڑھے سات سال بعد آپ کی وفات کے وقت حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے یہ ارشاد فرمایا تھا : (مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَإِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت بعد الموت إذا أدرج فی أکفانہ] ” جو کوئی محمد (ﷺ) کی عبادت کرتا تھا تو حضرت محمد (ﷺ) اپنی طبعی موت فوت ہوچکے ہیں اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ کبھی فوت نہیں ہوگا۔“ امام رازی (رض) اپنی تفسیر کبیر میں ان الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ﴿أَفَإِنْ مَّاتَ﴾ سے واضح ہو رہا ہے کہ آپ کو طبعی موت آئے گی اور اس کے ساتھ ہی حضرت سعید بن جبیر (رض) کا قول نقل کرتے ہیں کہ کسی رسول کو آج تک میدان کارزار میں قتل نہیں کیا گیا۔ آیت کے آخر میں ﴿شَاکِرِیْنَ﴾ کا لفظ اس لیے بھی لایا گیا ہے تاکہ واضح ہو کہ اللہ کے حقیقی شکر گزار بندے وہی ہوتے ہیں جو غم اور خوشی اور نفع و نقصان میں اللہ کے دین پر کاربند رہتے ہیں۔ حضرت علی (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اس فرمان سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ شاکر رہنے والے تھے۔ [ معارف القرآن] مسائل : 1۔ حضرت محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ 2۔ آپ (ﷺ) سے پہلے آنے والے رسول دنیا سے جا چکے اور آپ بھی فوت ہوں گے۔ 3۔ جو شخص اسلام سے پھر جائے وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کو جزا دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : نبی (ﷺ) اور ہر کسی نے فوت ہونا ہے : 1۔ رسول اللہ (ﷺ) فوت ہوں گے اور آپ کے مخالف بھی۔ (الزمر :30) 2۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (آل عمران :185) 3۔ کسی بشر کو دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا۔ (الانبیاء :34) 4۔ رب ذوالجلال کے سوا سب کچھ فنا ہوجائے گا۔ (الرحمن :26)