سورة الزخرف - آیت 16

أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُم بِالْبَنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا خدا نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں تجویز کی ہیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 16 سے 19) ربط کلام : ” اللہ“ کے بندوں میں کسی کو اس کا جز بنانے کا ثبوت۔ اہل مکہ نے خود ساختہ تصورات کی بنیاد پر کچھ شخصیات کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا جز اور کچھ کو اس کی صفات کا مظہر بنا رکھا تھا۔ جن شخصیات کو اللہ تعالیٰ کا جز قرار دیتے تھے ان میں ملائکہ بھی شامل تھے۔ ملائکہ کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ مشرکین کی مردہ فطرت کو بیدار کرنے کے لیے ان کی اپنی نفسانی خواہش پیش کر کے سوال کیا گیا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیاں پسند کی ہیں اور تمہارے لیے بیٹے پسند کرتا ہے؟ حالانکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ کالاہوجاتا اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ کیا جو زیور میں پرورش پائے اور کسی بحث کے دوران اپنا مؤقف کھول کر بیان نہ کرسکے اسے ” الرحمن“ کے لیے پسند کرتے ہو اور اپنے لیے اسے عار سمجھتے ہو۔ غور کرو کہ یہ کیسی سوچ اور فیصلہ ہے ؟ جس بنا پر تم نے ملائکہ کو ” الرحمن“ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے حالانکہ ملائکہ اس کے غلام ہیں۔ کیا یہ بات کہنے والے اس وقت موجود تھے ؟ کہ جب اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو اپنی بیٹیاں قرار دیا تھا کہ ان کی گواہی لکھ لی جائے۔ ایسی بات ہرگز نہیں ہوئی لہٰذا اس ہرزہ سرائی اور یہ عقیدہ رکھنے والوں کو قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے والوں سے اللہ تعالیٰ نے پہلے تو بیٹیوں کی ولادت کے وقت جو ان کی حالت ہوتی ہے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد ان سے دوسوال کیے ہیں۔ اولاد کی ضرورت انسان کو تین وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔ 1 ۔نسل کا تسلسل قائم رکھنا۔2 ۔فطری جذبہ اور محبت کے تحت اولاد کی خواہش کرنا۔3 ۔اولاد اپنے ماں باپ کا سہارا ہوتی ہے اس لیے ہر ماں باپ اولاد کا طلبگار ہوتا ہے لیکن والدین بیٹی کی بجائے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تینوں قسم کے جذبات سے مبرّا ہے لہٰذا اسے اولاد کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک فرشتوں کا معاملہ ہے وہ اس کی بیٹیاں نہیں بلکہ وہ اس کے عاجز اور تابع فرمان غلام ہیں جو اس کے حکم کے مطابق اس کی طرف سے تفویض کردہ کام سرانجام دیتے ہیں ان کی کیا مجال کہ وہ بال برابر بھی نافرمانی کر پائیں۔ 2۔ انسان اپنی فطرت اور ضرورت کے تحت بیٹیوں کی بجائے بیٹے پسند کرتا ہے۔ بیٹی پیدا ہونے سے والدین اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ محسوس کرتے ہیں اور بیٹے کو اپنا مددگار اور سہارا سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں اور کمزوریوں سے مبرّا اور ماورأ ہے۔ اس لیے اسے بیٹے اور بیٹی کی ضرورت نہیں اور نہ اس کی شان ہے کہ وہ کسی کو بیٹا یا بیٹی بنائے۔ یہاں تک بیٹی کا معاملہ ہے وہ تو فطری طور پر مرد کے مقابلے میں ناتواں ہوتی ہے اور طبعی طور پر اچھے لباس اور زیور کو پسند کرتی ہے۔ وہ اپنی فطری حیا کی وجہ سے جھگڑے کے وقت اپنی بات کھل کر بیان نہیں کرسکتی۔ عورت میں فطری طورپرمرد کے مقابلے میں حیا زیادہ ہوتی ہے۔ اعصابی اور ذہنی اعتبار سے بھی عورت مرد کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی مرد کے ساتھ اس کا جھگڑا ہوجائے توحیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر اپنا مؤقف بھی کھل کر بیان نہیں کرسکتی بے شک اس کا جھگڑا خاوند کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا معاملہ بزرگوں کے سامنے پیش ہو تو اکثر عورتیں اپنی بات کرتے ہوئے رو پڑتی ہیں۔ بیٹیاں آزمائش ہیں : ماں، باپ کے لیے ساری اولاد آزمائش ہوتی ہے بالخصوص بیٹیاں بڑی آزمائش ہیں۔ ﴿اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّاللّٰہُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ﴾ [ التغابن :15] تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہے اور ” اللہ“ کے ہاں برا اجر ہے۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () مَنْ عَالَ ثَلاَثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ فَلَہُ الْجَنَّۃُ) [ رواہ ابو داؤد : باب فِی فَضْلِ مَنْ عَالَ یَتَامَی] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس نے تین بچیوں کی پرورش کی انہیں ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔“ مسائل : 1۔ بعض مشرک ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں سمجھتے ہیں حالانکہ اپنے لیے وہ بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ 2۔ اکثر باپ بیٹی کی خوشخبری سن کر غم زدہ ہوجاتے ہیں۔ 3۔ عورت فطری طور پر زیور کو پسند کرتی ہے اور جھگڑے کے وقت اپنا مؤقف کھل کر بیان نہیں کرسکتی۔ 4۔ بعض مشرک ملائکہ کو خواہ مخواہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانے والوں کو قیامت کے دن اچھی طرح پوچھ گچھ کی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینے کا گناہ اور اس کی سزا : 1۔ ” اللہ“ اولاد سے پاک ہے۔ (الانعام :101) 2۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم [ خدا نہیں اللہ کے بندے تھے۔ (المائدۃ:75) 3۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم ہے۔ (مریم : 91، 92) 4۔ اللہ تعالیٰ کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد۔ (الجن :3) 5۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے جنم نہیں دیا نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے۔ (الاخلاص :3) 6۔ کیا تمہارے رب نے تمہیں بیٹے دئیے ہیں اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنایا ہے؟ یہ بڑی نامعقول بات ہے۔ (بنی اسرائیل :40) 7۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے حالانکہ وہ اس سے پاک ہے۔ (البقرۃ:116) 8۔ انہوں نے کہا ” الرحمن“ کی اولاد ہے حالانکہ وہ اولاد سے پاک ہے۔ (الانبیاء :26) 9۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے نہ اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے۔ (المومنون :91)