وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِن دَابَّةٍ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ
اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا اور ان دونوں میں جاندار چیزوں کو پھیلادینا ہے اور وہ جب چاہے ان کو جمع کرلینے پر قادر ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں رزق اور بارش کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ یہ آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ رزق اور بارش کا تعلق زمین کے ساتھ بھی ہے اس لیے زمینوں آسمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا ہے۔ جس طرح بارش اللہ کی قدرت کی نشانی ہے اسی طرح چوپائے بھی اس کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کی ہیت اور تخلیق کے بارے میں بارہا دفعہ ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو! ان پر غور کرو کہ زمین و آسمان کی تخلیق کس طرح ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح قائم کر رکھا ہے اور پھر ان دونوں میں بے شمار مخلوقات کو پھیلا دیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے لشکرہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (المدّثر :31) وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو مجموعی طور پر ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔1 ۔آسمانوں میں بسنے والی مخلوق میں سے ہم صرف ملائکہ کے بارے میں چند معلومات رکھتے ہیں۔ ان کی تعداد کے بارے میں نبی (ﷺ) رحمت کا ارشاد ہے۔ ( عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ اُتِیْتُ بالْبُرَاق وَھُوَ دَآبَّۃٌ اَبْیَضُ طَوِیْلٌ فَوْقَ الْحِمَارِوَدُوْنَ الْبَغْلِ یَقَعُ حَافِرُہٗ عِنْدَ مُنْتَھٰی طَرَفِہٖ فَرَکِبْتُ حَتّٰی اَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدَسِ فَرَبَطْتُّہٗ بالْحَلْقَۃِ الَّتِیْ تَرْبِطُ بِھَا الْاَنْبِیَاءُ قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّیْتُ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَاءَ نِیْ جِبْرَائِیْلُ بِاِنَاءٍ مِّنْ خَمْرٍٍ وَّاِنَاءٍ مِّنَ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرَائِیْلُ اِخْتَرْتَ الْفِطْرَۃَ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا اِلَی السَّمَاءِ۔۔ وَقَالَ فِیْ السَّمَاء السَّابِعَۃ فَاِذَا اَنَا بِاِبْرَاھِیْمَ مُسْنِدًا ظَھْرَہٗ اِلَی الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ وَاِذَا ھُوَ یَدْخُلُہٗ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ لَّا یَعُوْدُوْنَ اِلَیْہِ۔۔) [ رواہ مسلم : باب الإِسْرَاءِ بِرَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِلَی السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ] حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا، پھر آسمان کی طرف ہمارا عروج شروع ہوا۔۔ مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے تھا۔ وہ بیت المعمور سے کمر لگائے ہوئے تشریف فرما تھے۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جن کی باری پھر کبھی نہیں آتی۔۔“ 2 ۔زمین اور فضا میں رہنے الی مخلوق کی تعداد شمار کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ صرف کیڑوں مکوڑوں کے بارے میں ماہرین ارضیات اب تک کے اندازے کے مطابق ان کی تعدادساٹھہزار سے زائد بتلاتے ہیں۔ 3 ۔زمین کی تہہ میں بسنے والی مخلوق پانی میں رہتی ہو یا زمین کے اندر بستی ہو اس کے بارے میں بھی کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق زمین و آسمانوں، فضاؤں اور ہواؤں میں جہاں کہیں رہتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی وہاں ہی ضرورتیں پوری کررہا ہے اور وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔” دَآبَّۃٍ“ کا لفظ عربی زبان میں عام طور پر چوپاؤں کے لیے بولا جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے ” دَآبَّۃٍ“ کا لفظ اپنی پوری مخلوق کے لیے استعمال فرمایا۔” دَآبَّۃٍ“ کا مصدر ROOT) ) دبیب ہے جس کا معنٰی حرکت کرنے والا۔ کیونکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اپنے اپنے مقام پر متحرک ہے۔ اس لیے ان سب کے لیے دآبّۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس میں نوری، ناری، خاکی اور تمام مخلوقات شامل ہیں۔ مسائل : 1۔ زمین و آسمانوں کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی نشانیاں ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں بے شمار مخلوقات پیدا کر رکھیں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو جب چاہے اکٹھا کرسکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ:20) 2۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہے۔ (الطلاق :12) 3۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں وزمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن :29) 4۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ:148) 5 اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ:284) 6۔ بے شک میرا پروردگار جو تم عمل کرتے ہو اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (ھود :92) 7۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔ (حٰم السجدۃ:54) 8۔ اللہ ہر چیزکا احاطہ کرنے والا ہے۔ (النساء :126)