وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ
اگر اللہ اپنے سب بندوں کارزق فراخ ردیتا تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگتے لیکن وہ جس قدر چاہتا ہے ایک مناسب انداز سے اتارتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں سے باخبر اور ان پر نگاہ رکھنے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے فضل کی ایک صورت بارش بھی ہے اس لیے یہاں بارش کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر قسم کے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ” اللہ“ ہی اپنی پوری مخلوق کو رزق دینے والا ہے اور وہی اپنے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق اپنے بندوں کو رزق عطا کرتا ہے۔ اس کے رزق عطا کرنے کے اصولوں میں ایک اصول یہ ہے کہ وہ کسی کو ایک حد سے بڑھ کر رزق عطا نہیں کرتا۔ اگر وہ لامحدود طریقہ سے کسی کو رزق عطا کرے تو لوگ زمین میں بغاوت کرنے لگیں۔ وہ اپنے بندوں کو پوری طرح جانتا اور ہر وقت انہیں دیکھنے والا ہے۔ یہ بات تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے ہر انسان کے لیے اس کے رزق کی کیا حد مقرر کر رکھی ہے۔ لیکن یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جب لوگوں کو رزق کی فروانی حاصل ہوتی ہے تو چند لوگوں کے سوا باقی لوگ اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ دنیا میں کتنے لوگ ہوئے اور ہیں جنہوں نے رزق کی بنیاد پر لوگوں میں بے حیائی پھیلائی، کسی نے وسائل کی بنیاد پر اپنی قوم کو غلام بنایا اور ان کے لیے فرعون بن بیٹھا۔ رزق کی فراوانی پر ہی بے شمار مالداروں نے غریبوں پر ظلم ڈھائے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ اصولوں سے بڑھ کر ان لوگوں کو رزق دیتا تو نامعلوم یہ لوگ کیا کیا ظلم کرتے ؟ رزق سے مرادصرف خوردونوش کا سامان ہی نہیں بلکہ رزق سے مراد ہر قسم کے وسائل ہیں جن میں سیاسی اقتدار بھی شامل ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ” خَبِیْرٌ“ اور ” بَصِیْرٌ“ کی صفات کا ذکر فرما کر باغی لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ بات نہ بھولنا کہ تمہیں کوئی دیکھنے اور جاننے والانہیں۔ یقین کرو کہ جو تمہیں رزق عطا کرتا ہے وہ ہر حال میں تمہیں دیکھنے والا اور تمہارے ہر قسم کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔