سورة غافر - آیت 67

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ پروردگار جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے (یعنی جونک کی شکل کی ایک چیز سے) پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم کو طفولیت کی حالت میں ماں کے شکم سے نکالتا ہے پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو اس کے بعد تمہارا جینا اس لیے ہوتا ہے کہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو پھر تم میں سے کوئی ان منزلوں سے پہلے مرجاتا ہے اور (کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے) تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کرلے اور تاکہ تم عقل وفکر سے کام لو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت67سے68) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی الوہیت کے واضح دلائل دے کر حکم دیا ہے کہ صرف میری ہی فرمانبرداری کی جائے۔ اس لیے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اسی نے ہی انسان کو مختلف مراحل کے بعد پیدا کیا ہے۔ جس رب کی تابعداری کا حکم ہوا ہے اسی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ لفظ رب کا پہلا معنٰی خالق ہے۔ اس بنا پر ارشاد ہوا کہ اسی نے تمہیں پہلے مٹی سے پیدا کیا۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) اور آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔ پھر ان سے انسان کی آفزائش کا سلسلہ شروع فرمایا۔ (النساء :1) اور تمام انسانوں کی تخلیق کا آغاز نطفہ سے کیا۔ جس سے لوتھڑا بنایا۔ پھر بچہ بنا کرتمہیں تمہاری ماؤں کے بطن سے پیدا کیا اور تمہیں بھرپور جوانی تک پہنچایا۔ پھر تمہیں بوڑھا کرتا ہے اور اس کے بعد تم اپنی موت کے وقت کو پہنچ جاتے ہو۔ یہ تخلیقی مراحل اس لیے بتائے اور سمجھائے جارہے ہیں تاکہ تم سمجھنے کی کوشش کرو کہ وہی ایک ذات ہے جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہے اور وہی موت سے ہمکنار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اسے صرف ہوجانے کا حکم دیتا ہے تو وہ کام اس کی منشا اور نقشے کے مطابق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کے ثبوت میں انسان کی تخلیق کا کئی بار تذکرہ کیا ہے اور بار بار انسان کو توجہ دلائی ہے تاکہ انسان اپنے بارے میں غور کرے کہ اسے کیسے اور کس نے اور کس لیے پیدا کیا ہے۔ ظاہربات ہے کہ اسے صرف ایک ” اللہ“ ہی نے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اسی سے مانگنا اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اس طرح سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ انسان کو مختلف مراحل سے گزار کر ایک بچے کی شکل میں ماں کے پیٹ سے پیدا کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی آدمی کو جوان اور بوڑھا کرتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہی موت دیتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کی موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا مالک ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہے تو اس کے لیے صرف لفظ کُنْ کہتا ہے تو وہ کام اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ 8۔ انسان کو اپنی تخلیق اور اللہ کی توحید کے دلائل سمجھنے کے لیے عقل سے کام لینا چاہیے۔ تفسیربالقرآن: انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل : 1۔ ” اللہ“ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : 59) 2۔ حوّا کو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء : 1) 3۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : 12) 4۔” اللہ“ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل : 4) 5۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : 2) 6۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : 4)