لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
آسمانوں اور زمین کاپیدا کرنا انسان کے پیدا کرنے سے یقینا بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
فہم القرآن : (آیت57سے59) ربط کلام : حق کے بارے میں کبر اختیار کرنے والوں کو دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ پیدائش اور وجود کے اعتبار سے وہ بڑے ہیں یا زمین و آسمان بڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین و آسمان بڑے ہیں مگر جو لوگ بلادلیل اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں حقیقتاً وہ اندھے ہیں اس لیے بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قیامت برپا ہونے والی ہے جس کے بارے میں یہ شک یعنی قیامت کے دن ان کے کبر کا فیصلہ ہوجائے گا۔ جب آدمی تکبر کا شکار ہوجاتا ہے تو حقیقت پر غور کرنا تو درکنار اسے سننا بھی پسند نہیں کرتا۔ ایسا آدمی کافر ہے تو قولاً بھی قیامت کا انکار کرتا ہے۔ پھر اپنے انکار کو برحق ثابت کرنے کے لیے کہتا ہے کہ جب انسان مر کرمٹی کے ذرات بن جاتا ہے تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاسکتا ہے۔ آخرت کے منکر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہزاروں سال گزر چکے لیکن آج تک کوئی شخص مر کر زندہ نہیں ہوا۔ ان لوگوں کے کان کھولنے کے لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ اے قیامت کا انکار کرنے والو! ذرا رمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس وسیع و عریض زمین اور بلند وبالا آسمانوں کو کس طرح پیدا کیا ہے۔ کیا لوگوں کو پیدا کرنا بڑا کام ہے یا زمین و آسمان کو پیدا کرنا بڑا کام ہے ؟ اتنی واضح حقیقت دیکھنے اور جاننے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ جو لوگ کھلے حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حقیقت میں وہ اندھے ہیں اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے۔ اور نہ ہی باطل عقیدہ رکھنے والے اور برے کردار کے حامل لوگ صالح اعمال کرنے والوں کے برابر ہوسکتے ہیں۔ برے لوگوں کو اس لیے اندھا کہا گیا ہے کہ یہ ان کے اندھے پن کی دلیل ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ قیامت قائم نہیں ہوگی۔ اگر قیامت قائم نہیں ہوگی تو دنیا میں بے بس مظلوم کو انصاف کہاں سے ملے گا ؟ کیا ظالم کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ کمزوروں پر ظلم کرتارہے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ کیا ایسا سوچنا اور عقیدہ رکھنا اندھے پن کی دلیل نہیں؟ ایک آدمی دنیا میں اپنے رب سے ڈر ڈر کر زندگی گزارتا اور دوسرا اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک کرتا اور ہر قسم کی نافرمانی کرتا رہتا ہے۔ کیا نیک کو جزا دینے والا اور نافرمان کو سزا دینے والا کوئی نہیں ہونا چاہیے ؟ اگر ہونا چاہیے تو اس کے لیے ایک وقت اور مقام ہونا بھی ضروری ہے اس دن کا نام قیامت اور اس جگہ کا نام محشر ہے۔ لہٰذا تم مانو یا انکار کرو قیامت آکر رہے گی۔ جو اس پر ایمان لاتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرتا ہے وہ بینا اور نیک ہے۔ جو اس کا انکار کرتا ہے وہ اندھا اور متکبر ہے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ قیامت ضرور برپا ہونی چاہیے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ اس پر ایمان لانے اور اپنے رب کی نصیحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ” حضرت شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے وہ نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا دانا وہ ہے جس نے اپنے آپ کو عقل مند بنالیا اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کیے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا لیا اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھی۔“ [ رواہ الترمذی : باب الکیس من دان نفسہ(ضعیف)] مسائل : 1۔ لوگوں کو پیدا کرنے سے زمین و آسمان کو پیدا کرنا بڑاکام ہے۔ 2۔ اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہوتے۔ 3۔ صالح کردار ایمان دار اور براشخص برابر نہیں ہوسکتے۔ 4۔ لوگوں کی اکثریت نصیحت قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ تفسیربالقرآن :قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی : 1۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر :85) 2۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھائے گا۔ (الحج :7) 3۔ قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ (الکہف : 21) 4۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (الحج :1) 5۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے گی۔ (الحج :55)