سورة غافر - آیت 26

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ موسیٰ کو قتل کردوں اور وہ اپنے خدا کو اپنی مدد کے لیے بلائے میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمہارا دین نہ بدل دے یا یہ کہ زمین میں فساد نہ پھیلائے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت26سے27) ربط کلام : بنی اسرائیل کے قتل عام کے بعد فرعون کا انتہائی اقدام کرنے کا فیصلہ۔ نامعلوم فرعون نے کتنی مدّت تک بنی اسرائیل کا قتل عام جاری رکھا۔ اس ظالمانہ اقدام کے باوجود بنی اسرائیل کا نوجوان طبقہ موسیٰ (علیہ السلام) پر دھڑا دھڑ ایمان لانے لگا جس کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ (یونس : 83تا86) ” موسیٰ پر اس کی قوم کے نو جوانوں کے سوا فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف اور ان کے فتنہ میں مبتلا کرنے کی وجہ سے کوئی ایمان نہ لایا اور بلا شبہ فرعون زمین میں سرکش اور حد سے بڑھنے والوں میں تھا۔ موسیٰ نے فرمایا اے میری قوم ! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم فرمانبردار ہو۔ تو انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر ہی توکل کیا، اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں سے بچا۔ اور اپنی رحمت کے ساتھ ہمیں کافر لوگوں سے نجات عطا فرما۔“ اس صورت حال میں فرعون نے یہ محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کے قتل عام کا فیصلہ جس مقصد کے لیے کیا گیا تھا اس کا نتیجہ ہماری بجائے موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں جارہا ہے۔ اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف انتہائی اقدام کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے لیے اس نے وزیروں مشیروں کو کہا کہ میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔ اب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کر کے رہوں گا۔ بیشک وہ اپنے رب کو میرے مقابلے میں لے آئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو اسی طرح ڈھیل دیئے رکھی تو وہ تمہارے دین کو بدل دے گا اور ملک کو برباد کر دے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ظاہر ہورہا ہے کہ فرعون غصہ میں اپنے آپ سے باہر ہوا جارہا تھا اور اس کی قتل عام کی مہم ناکام ہوچکی تھی اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر الزام لگائے کہ یہ ہمارے دین کو بدلنا چاہتا ہے اور ملک کو برباد کرنے درپے ہے۔ مجھے چھوڑ دو کے بارے میں مفسرین نے تین آراء کا اظہار کیا ہے۔ 1۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی جرأت اور ان کے معجزات دیکھ کر فرعون اپنے دل میں خوف زدہ تھا کہ اگر میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی گزند پہنچائی تو ” اللہ“ کے ہاں فوری طور پر میری گرفت ہوجائے گی۔ 2 ۔جس طرح اس نے یہ جھوٹ بولا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ملک میں فساد برپا کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح ہی اس نے جھوٹی دھمکی دی تھی کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔ 3 ۔فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی وارننگ دے کر انہیں مرعوب کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا آسان نہیں۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) سچے رسول ہیں اور اپنے رب کی نگرانی میں ہیں۔ یہاں تک کہ فرعون کا یہ کہنا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارا دین بدلنا چاہتا ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) ملک میں فساد برپا کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات شروع سے ہی حکمران اور دنیا دار انبیاء اور داعی حق کے بارے میں کہتے آ رہے ہیں۔ اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون کی دین سے مراد اس کا نظام حکومت ہے یہ بات بھی ٹھیک ہے لیکن اس بات کی گنجائش بھی موجود ہے کہ مشرک جس کی بھی پوجا کرتے ہیں وہ دین اور ثواب سمجھ کرہی کرتے ہیں۔ فرعون کے ا لفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مذہبی لوگوں کو دین کے حوالے سے اور سیاسی لوگوں کو ملک کے نظام کے حولے سے اکسایا تھا تاکہ بیک وقت مذہب اور سیاست کے نام پر لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف بھڑکایا جاسکے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون نے کسی دوسرے موقع پر براہ راست موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کھلے الفاظ میں فرمایا کہ میں قیامت کا انکار کرنے والے ہر متکبر سے اپنے اور تمہارے رب کی حفاظت میں آچکا ہوں۔ (المومن :27) تکبر کی سزا : (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ مسائل: 1۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ملک میں فساد کرنے والا قرار دیا۔ 2۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی۔ 3۔ فرعون نے اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے لوگوں کو کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارا دین بدلنا چاہتا ہے۔ 4۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بلا خوف یہ بات فرمائی کہ میری حفاظت میرے رب نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ 5۔ مومن کو متکبر شخص سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ 6۔ جو شخص قیامت کے حساب و کتاب کو نہیں مانتا حقیقتاً وہ متکبر ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن: متکبر شخص کی عادات اور اس کا انجام : 1۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص :74) 2۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص :39) 3۔ تکبر کرنے والے کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن :35) 4۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل :23) 5۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن :76) 6۔ اللہ تعالیٰ ہر جابر اور متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المومن :35) 7۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہ آسکے گا۔ (الاعراف :48) 8۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (الاحقاف :20) 9۔ جو لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الاعراف :36) 10۔ جہنم کے دروازوں سے ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ۔ تکبر کرنے والوں کا کیسا برا ٹھکانہ ہے۔ (النحل :29)