وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ
اگر ان ظالموں کے پاس وہ سب کچھ ہوجوزمین میں ہے اور اتنا ہی اور بھی ہوتویہ لوگ قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ فدیہ میں دینے کو تیار ہوجائیں گے اور وہاں اللہ کی طرف سے ان کے سامنے وہ کچھ ظاہر ہوگا جس کا وہ وہم وگمان بھی نہ رکھتے تھے۔
فہم القرآن: (آیت47سے48) ربط کلام : پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے والا ہے لہٰذا قیامت کے دن ظالموں کے بارے میں جو فیصلہ ہوگا اس کا اعلان۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ظالموں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر فرمائے گا۔ ظالم سے مراد ہر قسم کے ظالم ہیں۔ ان میں سرِفہرست وہ ظالم ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کیا ہوگا (جس طرح یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو رب کا بیٹا قراردیا۔ عسائیوں نے حضرت مریم، حضرت عیسیٰ اور ذات کبریا کو شامل کر کے تثلیث کا عقیدہ بنایا۔ مشرکین مکہ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی صفات بتوں اور فوت شدگان میں تصور کرتے تھے۔ جیسا کہ لاکھوں کلمہ گو لوگ نبی (ﷺ) کو نور من نور اللہ کہتے ہیں اور علی ہجویری کو داتا گنج بخش اور عبدالقادر جیلانی کو پیر دستگیر اور نا معلوم فوت شدگان اور زندہ بزرگوں کے بارے میں مشرک کیا کیا کہتے اور عقیدہ رکھتے ہیں۔) ایسے ظالموں کو جب جہنم میں جھونکا جائے گا۔ تو یہ اس بات کی خواہش کریں گے کہ کاش! ہمارے پاس زمین کے خزانے اور اتنا کچھ اور ہو تو ہم جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے وہ کچھ ظاہر فرمائے گا جس کا آج یہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے برے اعمال ایک ایک کر کے ان کے سامنے لائے جائیں گے اور جس عذاب کو یہ مذاق سمجھتے تھے وہ ان کو ہر جانب سے گھیرے ہوئے ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ َیُؤْتٰی بالرَّجُلِ مِنْ أَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ شَرّمَنْزِلٍ فَیَقُوْلُ لَہٗ أَتَفْتَدِیْ مِنْہُ بِطِلَاعِ الْأَرْضِ ذَھَبًا فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ نَعَمْ فَیَقُوْلُ کَذَبْتَ فَقَدْ سَأَلْتُکَ أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ وَأَیْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ فَیُرَدُّ إِلَی النَّارِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی المسند السابق] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا۔ ایک جہنمی لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا۔ اے ابن آدم تو نے اپنا ٹھکانہ کیسا پایا؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب! بدترین ٹھکانہ ہے اللہ تعالیٰ اسے کہیں گے کیا تو زمین بھر کر سونا فدیہ کے طور پر دے گا؟ وہ کہے گا ہاں میرے رب۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے کم اور آسان کام کا مطالبہ کیا تھا جو تو نے نہ کیا پھر اسے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔“ 1 اللہ تعالیٰ نے انسان کے شرف اور مقام کے پیش نظر اسے صرف اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیا ہے لیکن مشرک اس کی ناقدری کرتے ہوئے دردر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف اپنی بارگاہ سے مانگنے کا حکم دیا لیکن مشرک ہر جگہ جھولی پھیلائے پھرتا ہے۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن ظالم خواہش کریں گے کہ زمین اور اس کے برابر چیز دے کر ہماری جان چھوٹ جائے۔ 2۔ قیامت کے دن ظالموں کے تمام اعمال ان کے سامنے لائے جائیں گے۔ 3۔ قیامت کے دن ظالموں کو ہر طرف سے گھیر لیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: مذاق کرنے والے اور ان کا انجام : 1۔ وہ چیز ان کو گھیرہی لے گی جس کی بنا پر یہ مذاق کرتے تھے۔ (ہود :8) 2۔ جب وہ ہماری نشانیاں دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت :14) 3۔ وہ تعجب کرتے ہیں اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت :12) 4۔ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گزرتے تھے تو مذاق کرتے تھے۔ (ہود :38) 5۔ کفار نے رسولوں سے باطل دلائل کے ساتھ جھگڑا کیا تاکہ وہ حق کو نیچا دکھائیں اور میری آیات، تنبیہات کا مذاق اڑائیں (الکہف :56) 6۔ جہنم ان کے کفر اختیار کرنے کا بدلہ ہے جو میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ (الکہف :106)