يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو راد دار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ (٣٩) ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ ( عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتا دی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔
فہم القرآن : ربط کلام : جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مال خرچ کریں اور ہر قسم کی دشمنی روا رکھیں ان کے ساتھ قلبی دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو کفار اور اہل کتاب کے بارے میں مسلسل بتلایا جا رہا ہے کہ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ تمہیں دین حق سے پھیر دیں۔ اب دو ٹوک انداز میں حکم دیا گیا ہے کہ انہیں اپنا راز دان بنانے کی کوشش نہ کرنا یہ دین اسلام سے منحرف کرنے کے ساتھ چاہتے ہیں کہ تمہیں ہر قسم کا نقصان پہنچے یہ تمہاری ذات اور دین کے دشمن ہیں، کئی بار اپنی زبان سے حسد و بغض کا اظہار کرچکے ہیں۔ ان کے سینوں میں حسد اور دشمنی کی جو آگ بھڑک رہی ہے اس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہم نے تمہارے سامنے حقیقت حال بیان کردی ہے تاکہ تم عقل و فکر سے کام لو۔ عربی زبان میں ﴿ بِطَانَۃُ ٗ﴾ استر کو کہتے ہیں جو لباس کے اندر پہنا جاتا ہے جسے بنیان کہا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ اس طرح خلط ملط ہونے کی کوشش نہ کرو کہ وہ تمہاری پالیسیوں اور کمزوریوں سے واقف ہو کر تمہیں نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں۔ اہل کتاب کی دشمنی کی تصویر کا ایک رخ : خیبر کی فتح کے بعد سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے رسول اللہ (ﷺ) کے پاس بھنی ہوئی بکری کا ہدیہ بھیجا۔ اس نے پوچھ رکھا تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) کون سا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اسے بتایا گیا کہ دستی کا گوشت پسند فرماتے ہیں۔ اس لیے اس نے دستی میں زہر ملایا اور بعد ازاں بقیہ حصہ بھی زہر آلود کردیا پھر اسے رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے رکھا۔ آپ نے دستی اٹھا کر اس کا ایک ٹکڑا چبایا لیکن نگلنے کے بجائے تھوک دیا۔ فرمایا کہ یہ دستی مجھے بتلا رہی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے زینب کو بلایا تو اس نے اقرار کرلیا۔ آپ نے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا میں نے سوچا کہ اگر یہ بادشاہ ہے تو ہمیں اس سے نجات مل جائے گی۔ اگر نبی ہے تو اسے خبر دے دی جائے گی۔ اس پر آپ نے اسے معاف کردیا۔ اس موقع پر رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ حضرت بشر بن براء بھی تھے۔ انہوں نے ایک لقمہ نگل لیا تھا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ روایت میں اختلاف ہے کہ آپ (ﷺ) نے اس عورت کو معاف کردیا تھا یا قتل کردیا تھا تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ پہلے تو آپ نے معاف کردیا تھا۔ لیکن جب حضرت بشر (رض) کی موت واقع ہوگئی تو پھر قصاص کے طور پر قتل کردیا گیا۔ [ فتح الباری : 497/7] ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کے پاس کسی صحابی نے ایک اہل کتاب کی سفارش کی کہ یہ فن کتابت اور حساب کا ماہر ہے آپ اسے اپنا منشی اور کاتب رکھ لیں۔ امیر المومنین (رض) نے فرمایا کہ میں اسے مسلمانوں کا رازدان نہیں بنا سکتا۔ پھر اس آیت کا حوالہ دیا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہیکہ اہل کتاب کو اتنا قریب نہ کرو۔[ ابن کثیر] حضرت عمر (رض) کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ غیر مسلموں کو اس قسم کے اہم عہدے نہیں دینے چاہییں۔ اسی وجہ سے وہ فوج کے کمانڈروں کو حکم دیتے کہ کفار کے ساتھ جب تمہارے مذاکرات ہوں یا کہیں مشترکہ اجلاس ہوں تو ان کے ساتھ اس طرح خلط ملط نہ ہونا کہ وہ تمہاری فوجی اور اخلاقی کمزوریوں سے واقف ہوجائیں۔ (سیرت الفاروق) ملت اسلامیہ کو سب سے پہلے جو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اس کا بنیادی سبب مسلمانوں کی یہی کمزوری تھی۔ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کو ابولؤلؤایرانی مجوسی نے صبح کی نماز کے وقت پے در پے خنجر مار کر زخمی کردیا۔ جب اس تکلیف میں حضرت عباس (رض) اور کچھ صحابہ حضرت عمر (رض) کے پاس اظہار افسوس کے لیے آئے تو انہوں نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں توجہ نہیں دلایا کرتا تھا کہ غیر مسلم غلام اپنے قریب نہ آنے دیا کرو۔ لیکن آپ لوگوں نے اسے درخور اعتنانہ سمجھا۔ اب اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہو۔ [ البدایۃ والنہایۃ] مسائل : 1۔ کفار سے دلی دوستی کرنا منع ہے۔ 2۔ کفار مسلمانوں کو تکلیف دینے میں ذرہ بھر کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ 3۔ کفار مسلمانوں کو ہر وقت تکلیف میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : کفار اور یہود ونصارٰی کے ساتھ دوستی منع ہے : 1۔ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کی ممانعت۔ (الممتحنۃ:1) 2۔ کفار کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ (الانعام :150) 3۔ کفار کی اطاعت کا نقصان۔ (آل عمران :149) 4۔ اہل کتاب چاہتے ہیں کہ مسلمان مشکلات میں پھنسے رہیں۔ (آل عمران :118) 5۔ اہل کتاب مسلمانوں کو اپنے پیچھے لگائے بغیرخوش نہیں ہوسکتے۔ (البقرۃ:120) 6۔ کافر مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہو سکتے۔ (آل عمران : 119۔120)