وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ
اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے اجتناب کیا اور انہوں نے اللہ کی جانب رجوع کرلیا، ان کے لیے خوش خبری ہے پس اللہ کی طرف سے بشارت ہے ان بندوں کے لیے
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے ساتھ طاغوت کا انکار کرنا بھی لازم ہے۔ قرآن مجید کا صرف اتنا حکم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ اس کا یہ بھی حکم ہے کہ طاغوت کی اطاعت کا قلباً قولاً اور عملاً انکار کیا جائے۔ اسی لیے کلمہ طیبہ میں پہلے معبودان باطل کی نفی ہے اور پھر اللہ کی ذات کا اثبات کیا گیا ہے۔ کیونکہ طاغوت انسان کو توحید کی روشنی سے نکال کر کفر و شرک کے اندھیروں میں لے جاتا ہے۔ جو چیز بھی انسان کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے دور کرے وہ طاغوت ہے۔ بے شک انسان کا اپنا نفس کیوں نہ ہو۔ جو لوگ طاغوت سے اجتناب کرتے ہیں اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف انابت رکھتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کا ارشاد ہے کہ یہ میرے بندے ہیں اس لیے انہیں خوشخبری کا پیغام دیا جائے ان کے رب کی رضا اور جنت ہے۔ طاغوت سے مراد سرکش، گمراہ کرنے والا، شیطان اور ہر باطل معبود ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ کے بندے طاغوت سے کلیتاً اجتناب کرتے ہیں۔ 2۔ اللہ کے بندے کا مل یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ 3۔ طاغوت کا انکار کرنے اور اپنے رب کی یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے والوں کے لیے خوشخبری کا پیغام ہے۔ تفسیر بالقرآن: طاغوت سے بچنے کا حکم : 1۔ طاغوت کے انکار کا حکم۔ (النساء :60) 2۔ طاغوت کی عبادت سے بچنے والے کے لیے خوشخبری ہے۔ (الزمر :17) 3۔ کفار طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ (النساء :76) 4۔ اہل کتاب میں سے بھی طاغوت کی عبادت کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ:60) 5۔ طاغوت کا انکار کرنے والا مضبوط کڑے کو تھامتا ہے۔ (البقرۃ:256) 6۔ کفار طاغوت کے ساتھی ہیں۔ (البقرۃ:257)