سورة الزمر - آیت 7

إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا اور اگر شکر بجالاؤ تو اس کو تمہارے لیے پسند کرے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والاکسی دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا آخر تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتادے گا کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو، بلاشبہ وہ سینوں کے راز تک کو خوب جانتا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ کسی کی عبادت کرنا پرلے درجے کی گمراہی اور ناشکری ہے جسکی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر حوالے سے یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ اے انسان ! میرے سوا نہ تجھے کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ میرے سوا کوئی تیری ضرورتیں پوری کرنیوالاہے۔ لہٰذا تجھے صرف میری ہی عبادت کرنا ہے اور مجھ سے اپنی حاجات مانگنا چاہیے۔ لیکن ہر دور میں بے شمار ایسے لوگ رہے ہیں اور ہوں گے جو اپنے خالق اور مالک کی اتنی بات بھی اس کے حکم کے مطابق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور اس کی بے انتہا درجے کی ناشکری ہے، جسے اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا۔ وہ انسان کی ناشکری کی بجائے اس کی شکر گزاری اور تابعداری پر خوش ہوتا ہے۔ اس کے باوجود انسان ناشکری پر تلا رہے اور غیروں کی تابعداری کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کو اس کی رائی کے دانے کے برابر بھی پرواہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی خدائی اور بادشاہی کو بال کے برابر فرق پڑتا ہے۔ سورۃ کی ابتداء میں اس شرک کی مذمت کی گئی کہ کسی فوت شدہ شخصیت یا بت وغیرہ کو اللہ کے قرب کاذریعہ بنانا گمراہی ہے۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مشرک سمجھتا ہے کہ فلاں شخصیت قیامت کے دن میری نجات کی ذمہ داری اٹھالے گی کیونکہ قبروں کے مجاور، بتوں کے پجاری اور شرک کا پرچار کرنے والے علماء، پیر اور فقیر لوگوں کو یہی کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ بزرگ اور مرشد دنیا میں خدا کی خدائی میں اختیارات رکھتے ہیں اور قیامت کے دن بھی تمہاری نجات کے ذمہ دار ہوں گے۔ اس بات کی یہاں نفی کی جارہی ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ جو لوگ سمجھانے کے باوجود اپنے باطل عقیدہ پر قائم رہتے اور اس کے لیے جھگڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے باطل عقیدہ اور عمل کے بارے میں بتلائے گا یعنی انہیں پوری پوری سزا دے گا۔ کیونکہ بالآخر سب نے اسی کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اور کوئی اس سے بات چھپا نہیں سکتا کیونکہ وہ دلوں کے راز جاننے والاہے۔ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ مجرم کو جب یہ الفاظ کہے جائیں کہ وقت آنے پر تجھے سب کچھ بتلا دیا جائے تو یہ الفاظ ہر زبان میں زبردست مجرم کے لیے انتباہ کی حیثیت رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے کردار پر نظر ثانی کرے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾ قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ناشکری نہیں شکرگزاری پر خوش ہوتا ہے۔ 2۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سب کچھ بتلائے گا اور نا شکروں کو سز ا دے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جاننے والا ہے کیونکہ سب نے اس کے حضور پیش ہونا ہے۔