وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنے احکامات بیان کرتا ہے لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے لوگوں کو تبلیغ کرتے رہیں۔ خاص کر ایک جماعت کو مسلسل یہ فریضۂ سرانجام دینا چاہیے۔ تھوڑا سا آگے چل کر آیت 110میں اس امت کے وجود کی غرض و غایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے وجود کا مقصدہی یہ ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکتے رہو۔ چونکہ امت میں ہر آدمی اتنا وقت نہیں دے سکتا جس سے فریضۂ تبلیغ کا حق ادا ہو سکے اور نہ ہی ہر کسی میں اتنی صلاحیت ہوا کرتی ہے کہ وہ دلائل کی بنیاد پر دوسرے کو مطمئن کرسکے۔ اس لیے یہاں امت میں ایسی جماعت ہونے کا تقاضا کیا گیا ہے۔ جو لوگوں کو ہمہ وقت تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ خیر کی دعوت اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکتی رہے۔ ایسے لوگ اپنے مقاصد میں کامیاب اور آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ جو لوگ فریضۂ تبلیغ ادا نہیں کرتے ان پر خدا کی لعنت ہوا کرتی ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے پھٹکار کی کیوں کہ یہ لوگ اللہ کے نافرمان اور اس کی حدّوں کو توڑنے والے تھے۔ ان پر اس لیے بھی لعنت کی گئی کہ وہ لوگوں کو برائی سے روکنے کے بجائے خود بھی گناہوں میں ملّوث ہوگئے اور یہ برے کردار کے حامل لوگ تھے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ اَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلٰی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ کَان الرَّجُلُ یَلْقَی الرَّجُلَ فَیَقُوْلُ : یَا ہٰذَا !إِتَّقِ اللّٰہَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّہٗ لَایَحِلُّ لَکَ ثُمَّ یَلْقَاہُ مِنَ الْغَدِ فَلَا یَمْنَعُہٗ ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ أَکِیلَہٗ وَشَرِیْبَہٗ وَقَعِیدَہٗ فَلَمَّا فَعَلُوْا ذٰلِکَ ضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوْبَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ ثُمَّ قَالَ:﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ﴾ إِلٰی قَوْلِہٖ ﴿فَاسِقُوْنَ﴾ ثُمَّ قَالَ کَلَّا وَاللّٰہِ لَتَأْمُرُنَّ بالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لَتَأْخُذُنَّ عَلٰی یَدَیِ الظَّالِمِ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بنی اسرائیل میں پہلا نقص یہ پیدا ہوا کہ کوئی آدمی کسی کو برا کام کرتے دیکھتا تو اسے اللہ کا خوف دلاتے ہوئے اس کام سے منع کرتاکہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے۔ اگلے دن اسے منع نہ کرتا بلکہ اس کے ساتھ مل کر کھاتا‘ پیتا‘ اٹھتا‘ بیٹھتا ان کی جب یہ حالت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل بھی ایک جیسے کردیے۔ پھر فرمایا بنی اسرائیل پر بزبان داوٗد اور عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) لعنت کی گئی۔ اس کے بعد فرمایا سنو! اللہ کی قسم! تمہیں ضرور بالضرور نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرتے ہوئے ظالم کا ہاتھ روکنا ہوگا۔“ ایک اور موقع پر نبی (ﷺ) نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کشتی میں سوار لوگوں کی مثال بیان فرمائی : (مَثَلُ الْقَائِمِ عَلٰی حُدُوْدِ اللّٰہِ وَالْوَاقِعِ فِیْھَا کَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَھَمُّوْا عَلٰی سَفِیْنَۃٍ فَأَصَابَ بَعْضُھُمْ أَعْلَاھَا وَبَعْضُھُمْ أَسْفَلَھَا فَکَانَ الَّذِیْنَ فِیْ أَسْفَلِھَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوْا عَلٰی مَنْ فَوْقَھُمْ فَقَالُوْا لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِیْ نَصِیْبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا فَإِنْ یَتْرُکُوْھُمْ وَمَا أَرَادُوْاھَلَکُوْا جَمِیْعًآ وَإِنْ أَخَذُوْا عَلٰی أَیْدِیْھِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِیْعًا) [ رواہ البخاری : کتاب الشرکۃ، ھل یقرع فی القسمۃ والإستھام فیہ] ” اللہ تعالیٰ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں ملوث ہونے والوں کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے ایک بحری جہاز کے بارے میں قرعہ اندازی کی۔ بعض کو اوپر والے حصے میں اور کچھ کو نیچے والے حصے میں جگہ ملی۔ نیچے والوں کو جب پانی کی ضرورت پڑتی تو اوپر والوں کے پاس جاتے۔ نیچے والوں نے کہا کہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کرلیتے ہیں اور اوپر والوں کو تکلیف نہیں دیتے۔ اگر اوپر والے انہیں اسی حالت پر چھوڑ دیں تو تمام ہلاک ہوجائیں گے اور اگر ان کے ہاتھوں کو روک لیں تو وہ سب بچ جائیں گے۔“ مسائل : 1۔ امت محمدیہ کا مقصد نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا ہے۔ 2۔ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن : امّتِ محمدیہ کے اجتماعی فرائض : 1۔ اپنے آپ اور اعزاء واقرباء کو جہنم کی آگ سے بچانا۔ (التحریم :6) 2۔ تبلیغ کے لیے ایک جماعت کا ہونا ضروری ہے۔ (آل عمران :104) 3۔ اجتماعی زندگی میں شریعت نافذ کرنا فرض ہے۔ (الحج :41) 4۔ باہمی معاملات مشورہ سے طے کرنے چاہییں۔ (آل عمران :159) 5۔ عہدہ اہل شخص کو دینا چاہیے۔ (النساء :58)