يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
اے ایمان والو ! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے، اور خبردار ! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو۔
فہم القرآن : (آیت 102 سے 103) ربط کلام : اہل کتاب کی اتباع سے بچنے اور ان سے ڈرنے کی بجائے مسلمانوں کو صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اسی کے حکم پر مر مٹنا چاہیے۔ اب براہ راست مسلمانوں سے مسلسل خطاب ہوتا ہے۔ تقو ٰی کا عمومی معنٰی پرہیزگاری ہے لیکن جب ” اِتَّقِ اللّٰہَ“ کے الفاظ استعمال ہوں تو اس کا معنٰی ہوا کرتا ہے کہ اپنے رب کی نافرمانیوں سے ڈرو‘ اس کی ذات اور احکام کا احترام کرو۔ نفس مضمون کے اعتبار سے یہاں یہ بات بھی تقو ٰی میں شامل ہے کہ اہل کتاب کے الزامات اور سازشوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ سے ڈرو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حق ہے۔ خلوت ہو یا جلوت‘ نفع ہو یا نقصان‘ حاکم ہو یا محکوم‘ امیر ہو یا غریب‘ پڑھے لکھے ہو یا ان پڑھ۔ گویا کہ سب کے سب اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ خوفِ الٰہی کا اجتماعی ماحول اور ایک سماں پیداہو جائے۔ جس میں تمہارے لیے نیکی کرنا آسان اور برائی سے بچنا سہل ہوجائے گا۔ تقو ٰی وقتی اور عارضی نہیں بلکہ اس میں ہمیشگی ہونی چاہیے یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے۔ دوسرے لفظوں میں مرنا گوارا کرلینا لیکن غیر اللہ سے ڈرنا قبول نہ کرنا۔ گویا کہ تقو ٰی اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ تقو ٰی اور اسلام کا تقاضا ہے کہ تم اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو۔ اتحاد کے لیے پہلی شرط اللہ کا خوف ہے اگر آدمی کا دامن خوفِ الٰہی سے خالی ہو تو وہ اپنے مفادات کی خاطر چھوٹی سی بات کو پہاڑ بنا کر پیش کرتا ہے۔ اتحاد امت کے لیے سب سے بڑی بنیاد خدا خوفی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رسی کو تھامنا ہے۔ گویا کہ مسلمانوں کا اتحاد اللہ کا ڈراختیار کیے اور کتاب وسنت تھامے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہی اتحاد دیرپا اور بابرکت ہوتا ہے۔ اس کے بغیر اتحاد ناپائیدار اور عارضی ہوگا۔ رسی کی وضاحت کرتے ہوئے آپ (ﷺ) نے فرمایا : (کِتَاب اللّٰہِ ھُوَحَبْلُ اللّٰہِ) [ جامع الصغیر للألبانی] ” اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے۔“ یہاں رسی کا لفظ استعمال فرما کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح رسی سے لکڑیوں کا گٹھا یا جانور باندھا جاتا ہے اس طرح تم بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رسی کے ساتھ باندھ لو۔ آیت میں رسی کو مضبوط پکڑنے کے ساتھ مزید حکم دیا کہ باہمی تفرقے سے بچتے رہو۔ اختلافات سے نہ صرف ذات اور جماعت کی ساکھ اکھڑتی ہے بلکہ اس سے بے سکونی اور بے برکتی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ آدمی ایک دوسرے کے خلاف حسد و بغض کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ اکثر اوقات اس کا انجام قتل و غارت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں اختلاف کو بھڑکتی ہوئی آگ اور اتحاد کو اللہ تعالیٰ کی نعمت قرار دیا گیا ہے۔ یہاں صحابہ کرام (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے ماضی کو سامنے رکھو۔ تم اسلام سے قبل کس قدر باہمی اختلاف کی آگ میں بھسم ہوئے جا رہے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہارے دلوں سے رنجش و کدورت کو نکال کر انہیں محبت و الفت سے لبریز کردیا۔ اس اختلاف سے مراد اوس اور خزرج کی وہ طویل ترین جنگ ہے جو تقریباً سو سال تک جاری رہی۔ جس میں سینکڑوں عورتیں بیوہ، ہزاروں بچے یتیم اور قیمتی جانیں ضائع ہونے کے ساتھ شاداب کھیتیاں‘ اور لہلہاتے ہوئے باغ اور پر رونق آبادیاں ویران ہوئیں۔ نقصانات سے بچنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ” تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ تم کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الأدب] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ رہنے والا ہمیشہ صراط مستقیم پاتا ہے۔ 2۔ صاحب ایمان لوگوں کو صحیح طور پر اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ 3۔ ایمان داروں کو اللہ کی غلامی میں موت آنی چاہیے۔ 4۔ فرقہ بندی کے بجائے قرآن و سنّت کے ساتھ وابستہ رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اتحاد نعمت اور اختلاف آگ ہے : 1۔ اتحاد واتفاق اللہ کی توفیق کا نتیجہ ہے۔ (الانفال :63) 2۔ اتحاد واتفاق اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ (آل عمران :103) 3۔ کتاب اللہ کارشتہ نہ ٹوٹنے والا ہے۔ (البقرۃ:256) 4۔ باہمی اختلاف اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ (الانعام :65) 5۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ تمّسک کا نتیجہ صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران :101)