سورة الصافات - آیت 100

رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے میرے رب مجھ کو کوئی سعادت مند لڑکا عطا فرما

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن:(آیت100سے111) ربط کلام : ہجرت کے دوران حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیٹے کے لیے دعا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنے گھر بار، باپ اور اپنی قوم کو چھوڑا تو اس وقت ان کو بڑی شدت کے ساتھ بیٹے کی کمی محسوس ہوئی اور دعا کی اے اللہ اگر یہ قوم تیرے دین کو نہیں مانتی تو کم از کم نیک اولاد عنایت کردے جو میرا سہارا اور غمخوار بننے کے ساتھ تیرے دین کا پر چار کرتی رہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا اسی وقت قبول نہیں ہوئی۔ بلکہ قرآن حکیم میں یہ بات انہی کی زبان اطہر سے بیان کی گئی ہے۔ کہ دعا بہت مدت کے بعد بلکہ عمر کے آخری حصے میں مستجاب ہوئی۔ ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ﴾ [ ابراہیم :39] ” سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے بلاشبہ میرا رب دعا سننے والا ہے۔“ تمام مفسرین نے لکھا ہے جناب خلیل (علیہ السلام) کو 86سال کی عمر میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) عطا کئے گئے۔ اللہ پاک کی عجب سنت ہے کہ جب کسی بندے کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ساتھ ہی نیک لوگوں کی آزمائش بھی شروع کرتا ہے۔ جن کے مرتبے بلند ہوتے ہیں ان کی آزمائش بھی بڑی ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا کہ میں بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ فلسطین سے مکہ آئے اور خواب کا بیٹے سے ذکر کیا اور پوچھا۔ بیٹا تیرا کیا خیال ہے ؟ بیٹے سے پوچھنے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں کہ اگر بیٹے نے خوشی سے اپنے آپ کو تعمیل حکم کے لئے پیش کیا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہوجائے گا ورنہ حکم خداوندی کی تعمیل تو بہر حال کی جائے گی۔ شاید وہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ جس صالح بیٹے کی میں نے آرزو کی تھی کیا واقعتا وہ صالح ہے۔ تیسری وجہ ظاہر ہے کہ خواب کا تعلق بیٹے سے بھی ہے لہٰذابیٹے سے پوچھنا مناسب سمجھا۔ اسماعیل نے عرض کی ابو جان آپ کو جو حکم ہوا ہے اس کے مطابق عمل فرمائیں انشاء اللہ آپ مجھے حوصلہ مند پائیں گے۔ حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) کا جواب آداب فرزندی کی معراج ہے۔ باپ اور بیٹا بڑے اعتماد سے میدان منٰی کی طرف جارہے ہیں۔ شیطان کا اضطراب : اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کا عظیم الشان اور عدیم المثال مظاہرہ شیطان مردود کس طرح دیکھ سکتا تھا۔ چنانچہ شیطان بھاگم بھاگ حضرت ہاجرہ کے پاس گیا اور کہنے لگا اے ام اسماعیل آپ کا بیٹا کدھر گیا ہے۔ حضرت ہاجرہ نے فرمایا وہ اپنے والد کے ساتھ گیا ہے۔ شیطان نے کہا اے ہاجرہ تجھے خبر نہیں اسے ابراہیم (علیہ السلام) ذبح کرنے کے لیے لے گیا ہے۔ حضرت ہاجرہ حیران ہو کر پوچھتی ہیں کہ کبھی ایسے بھی ہوا ہے کہ باپ اپنے بیٹے کو ذبح کرے اور خاص کراتنے خوبصورت اور نیک سیرت بیٹے کو ؟ شیطان نے سوچا شاید اب میرا داؤ چل جائے گا کہنے لگا اے ام اسماعیل! آج ابراہیم اسے ضرور ذبح کر دے گا۔ کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ مجھے ایسا کرنے کا ” اللہ“ نے حکم دے رکھا ہے۔ حضرت ہاجرہ نے فرمایا اگر اللہ پاک نے یہ حکم دیا ہے تو جاؤ چلے جاؤ۔ میں اپنے اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔ [ تفسیر بحر العلوم ] حضرت ہاجرہ سے مایوس ہو کر شیطان جمرہ عقبہ (آج کل جس کو بڑا شیطان کہا جاتا ہے) کے پاس کھڑا ہو کر ابراہیم (علیہ السلام) کو پھسلانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ابراہیم (علیہ السلام) نے سات پتھر مارے۔[ رواہ احمد : مسند ابن عباس] ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور بے مثال قربانی : آج سے ہزاروں سال پیشتر دنیا کے ایک گوشے میں عجیب وغریب واقعہ رونما ہورہا ہے کہ وادی ” غَیْرِذِیْ زَرْعٍ“ پر دومخلص ترین بندے جمع ہیں۔ باپ کی زبان پر ! ﴿إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ﴾[ الانعام :79] ” میں سب کو چھوڑ چھاڑ کر ایک ہی ذات کبریا کا ہوگیا ہوں جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور میں مشرکوں سے نہیں ہوں۔“ بیٹا آنکھیں موند کر چہرہ زمین کے ساتھ لگائے ہوئے کہہ رہا ہے۔ ﴿سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ﴾[ الصّافّات :102] ” آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔“ پھر دوسری جگہ جمرہ وسطی کے پاس آکر اور اس کے بعد تیسری دفعہ جمرہ اولی کے پاس شیطان نے آخری کوشش کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تینوں جگہ سات سات کنکریاں ماریں۔ نبی پاک (ﷺ) نے کنکریاں مارنے کو بھی حجاج کے لئے شعائر قرار دے دیا۔ چشم فلک نے ایسا نظارہ نہ پہلے کبھی کیا اور نہ ہی کبھی آئندہ کرے گی۔ کہ حکم الٰہی کی تعمیل میں جناب خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اپنے جگر گوشے کو پیشانی کے بل کنکریلی زمین پر لٹایا تاکہ پیارے اور معصوم رخ زیبا کو دیکھ کر پدری جذبہ استقامت کی راہ میں حائل نہ ہوجائے۔ ﴿فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ﴾[ الصّٰفّٰت :103] ” جب باپ اور بیٹے نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔“ جس بیٹے کے لیے مدت مدید دعائیں مانگیں تھیں۔ جس کی خبر گیری کے لیے میلوں سفر کیا تھا جس کو ہاجرہ نے پیار کی لوریاں دی تھیں اور جس چہرے کو چوم کر اپنے دل کو تنہائی میں تسلی دیا کرتی تھیں آج وہی چہرہ مٹی میں لتھڑا ہوا الٹاپڑا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو زمین پر لٹا کر یہ ثابت کردیا کہ اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے اور یہی راستہ ہے جس سے آدمی اصل نیکی تک پہنچتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ لیکن اللہ کا فضل وکرم کہ اس نے اسمعیل (علیہ السلام) کو بچا کر ایک دنبے کی قربانی قبول کی۔ کیونکہ مقصود امتحان تھا نہ کہ جان!” ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہے۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی جزا دیا کرتے ہیں یقیناً یہ ایک بڑی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی دے کر اسمعیل کو چھڑا لیا ہم نے اس کا ذکر خیربعد میں آنے والوں میں ہمیشہ کے لئے رکھ دیا۔ سلام ہو ابراہیم پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔“ [ الصّٰفّٰت : 104تا111] بعض لوگوں نے عقل پرستی کی بنا پر لکھا کہ چھری کا پھل، چھری کے دستے میں داخل ہوگیا۔ کسی نے کہا جناب اسمٰعیل (علیہ السلام) کی گردن تا نبے کی بن گئی اور کچھ تو عقل کے آگے لگ کر بھا گنے لگے اور کہا کہ لٹانے کا معنٰی ہے کہ دونوں اللہ کے سامنے جھک گئے۔ حا لانکہ قرآن حکیم نے ﴿فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ﴾کے الفاظ کہہ کر آگلی کیفیت کو اہل دل پر چھوڑ دیا ہے۔ ﴿سَلَامٌ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ﴾[ الصّافّات :109]” ابراہیم (علیہ السلام) پرسلام ہو“ مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے نیک بیٹے کی دعا کی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسماعیل (علیہ السلام) کی صورت میں نیک اور باحوصلہ بیٹا عطا فرمایا۔ 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسماعیل سے اپنے خواب کا ذکر کیا تو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے عرض کی کہ آپ اپنے خواب پر عمل پیرا ہوجائیں۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنا خواب سچ کردکھایا تو اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کے بدلے ایک دنبے کی قربانی قبول فرمائی۔ 5۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس سنت کو آنے والے لوگوں کے لیے نمونہ قرار دیا گیا۔ 6۔ ابراہیم (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی رہیں گی۔