وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
(پرھ جب ایسا ہوا کہ مشیت الٰہی نے جو کچھ چاہا تھا ظہور میں آگیا) اور آدم نے (یہاں تک معنوی ترقی کی کہ) تعلیم الٰہی سے تمام چیزوں کے نام معلوم کرلیے تو اللہ نے فرشتوں کے سامنے وہ (تمام حقائق) پیش کردیے اور فرمایا "اگر تم (اپنے شبہ میں) درستی پر ہو تو بتلاؤ ان (حقائق) کے نام کیا ہیں؟
فہم القرآن : (آیت 31 سے 33) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ خلیفہ کی علمی برتری اور فضیلت کا بیان۔ جناب آدم (علیہ السلام) کو ان تمام چیزوں کے ناموں سے آگاہ کردیا گیا جن سے انہیں واسطہ پڑناتھا۔ پھر ان اشیاکو ملائکہ کے سامنے پیش کرکے حکم دیا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتلاؤ۔ ملائکہ نے نام بتلانے سے معذوری ظاہر کی اور عرض کی کہ بار الٰہا! تیری ذات، احکام اور کام ہر کمزوری اور نقص سے پاک ہے ہم تو فقط اتنا ہی جانتے ہیں جو کچھ آپ نے ہمیں بتلایا ہے بلاشبہ تو ہر چیز کا علم بھی رکھنے والا ہے۔ ثابت ہوا کہ ملائکہ بھی غیب نہیں جانتے۔ اس کے بعد آدم (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ ملائکہ کو ان چیزوں کے نام بتلاؤ حکم پاتے ہی حضرت آدم (علیہ السلام) نے بلا تأمل ان کے نام بتلا دئیے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کیا میرا پہلے سے یہ فرمان نہیں تھا کہ میں زمین و آسمان کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہوں؟ اور وہ کچھ بھی مجھے معلوم ہے جو تم ظاہر کر رہے تھے اور جو تم چھپائے ہوئے ہو۔ اس میں واضح طور پر ملائکہ کے لیے اشارہ ہے کہ یہ چیزیں تمہارے سامنے ہونے کے باوجود تم ان کے نام نہیں بتلا سکے تو تم آدم (علیہ السلام) کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کیسے جان سکتے ہو اور جس طرح آدم (علیہ السلام) نے میرے عطا کردہ علم کے ذریعے تم پر برتری حاصل کرلی ہے اسی طرح ہی میری ہدایت کی روشنی میں خیر و شر اور نیکی و بدی میں امتیاز کرکے برتری حاصل کرے گا۔ بعض مفسرین غیر مستند روایات اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر لکھتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کو ان چیزوں کے نام ملائکہ سے الگ کرکے اور بعض کا خیال ہے کہ ملائکہ کی موجودگی میں ہی بتلائے گئے تھے۔ فرشتے اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ نام بھول گئے جبکہ آدم (علیہ السلام) اپنی لیاقت کی بنیاد پر ان چیزوں کے نام یاد رکھنے اور بتلانے میں کامیاب رہے۔ قرآن مجید لا حاصل موشگافیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح انسان اصل مقصود اور عملی زندگی سے نکل کر قیل و قال کا ہو کررہ جاتا ہے۔ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام چیزوں کے نام بتلائے۔ 2۔ ملائکہ وہی کچھ جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ انہیں بتلاتا ہے۔ 3۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے ملائکہ کو تمام چیزوں کے نام بتلادیے۔ 4۔ جس بات کا علم نہ ہو اس کے بارے میں عدم علم کا اعتراف کرنا ملکوتی صفت ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز جاننے والا ہے اور اس کا ہر کام اور حکم پُر حکمت ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مخلوق کے علم کا ماخذ : 1۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء {علیہ السلام}کی طرف وحی بھیجی۔ (الانبیاء: 25) 2۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ {ﷺ}کو پڑھنا سکھایا۔ (العلق :1) 3۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ کچھ بتلایا جو یہ نہیں جانتا تھا۔ (العلق :5) 4۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق :4) 5۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن :5) 6۔ انسان کو رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن :6) 7۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ:31) 8۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ:32) 9۔ سدھائے ہوئے جانوروں کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (المائدۃ:4)