سورة الصافات - آیت 62

أَذَٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

A) بھلایہ مہمانی بہتر ہے یا زقوم کا درخت؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن:(آیت62سے74) ربط کلام : جنت کی نعمتوں اور عیش و عشرت کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزا اور ان کی بدترین خوراک۔ جنتیوں کی تکریم و تعظیم اور اس کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد جہنم کی بدترین خوراک بتلا کر استفسار فرمایا ہے کہ بتاؤ ! جنت کے انواع و اقسام کے کھانے اور پھل بہتر ہیں یا کہ تھوہر کا درخت ؟ جسے اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیے آزمائش بنایا ہے یہ درخت جہنم کی تہہ سے اگے گا اس کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح ہوں گے۔ جہنمی اس کو کھائیں گے اور اپنے پیٹ بھرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کو نگلنے کے لیے ابلتا ہوا پانی دیا جائے گا اور پھر انہیں جہنم کے ایک اور گڑھے کی طرف دھکیلا جائے گا۔ یہ سزا اس لیے ہوگی کیونکہ یہ لوگ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے اپنے گمراہ آباء و اجداد کی پیروی کرتے رہے اور اسی طرح نسل در نسل گمراہ ہوتے چلے گئے۔ حالانکہ انہیں انتباہ کرنے کے لیے ان کی طرف رسول بھیجے تھے لیکن مخلص بندوں کے سوا باقی تمام لوگ گمراہ ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں ان کا دنیا میں بھی انجام بدتر ہوا۔ اگر دیکھنا چاہو تو تاریخ کے اوراق اور جغرافیائی نشانات سے ان کا انجام دیکھ سکتے ہو۔ جہنم کی تہہ سے اگنے والے شجرۃ الزّقوم جسے اردو زبان میں تھوہر کا درخت کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ درخت قبرستانوں میں پایا جاتا ہے جس کی کچھ قسمیں ایسی ہیں جو بالکل شیطان کے سر دکھائی دیتے ہیں۔ شیطان کا سر ایک محاورہ بھی ہے۔ لوگ ہر اس بری اور پراگندہ چیز کو شیطان کے سر سے تشبیہ دیتے ہیں جسے دیکھتے ہی آدمی کی طبیعت میں کراہت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ” شَجَرَۃُ الزَّقُّوْمِ“ اسی قسم کا درخت ہوگا جو جہنم کی تہہ میں پیدا ہوگا جسے کفار مکہ نے یہ کہہ کر مذاق کا نشانہ بنایا کہ آگ میں درخت کس طرح پیدا ہوسکتا ہے۔ در حقیقت یہ ان کے دماغ کا فتور اور قرآن مجید کے انکار کرنے کا انداز تھا ورنہ وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے یہ مشکل کام نہیں کہ وہ آگ کی تہہ سے درخت پیدا کرے۔ کیونکہ ان کا یہ ایمان تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نمرود کی آگ سے محفوظ رکھا تھا۔ ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ جنتیوں کو فرمائے گا کہ اے جنتیو! جنتی عرض کریں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم راضی ہو؟ جنتی کہیں گے ہم کیوں راضی نہ ہوں۔ کیونکہ آپ نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا ہے جو آپ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز دینا چاہتاہوں۔ جنتی کہیں گے اے ہمارے رب ! اس سے افضل چیز کون سی ہو سکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تم پر راضی ہوگیا ہوں اور اس کے بعد تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔“ [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار] (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ(حسن)] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل: 1۔ جہنمیوں کو کھانے کے لیے تھوہر کا درخت اور پینے کے لیے ابلتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ 2۔ جہنمیوں کا جہنم میں جانے کا ایک بنیادی سبب یہ ہوگا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں اپنے آباء اجداد کے رسم و رواج کو دین سمجھتے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ تفسیر بالقرآن: جنتیوں اور جہنمیوں میں فرق : 1۔ قیامت کے دن جنتیوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس :26) 2۔ جنتیوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ :22) 3۔ جنتیوں کو ملائکہ سلام کہیں گے۔ (الزمر :73) 4۔ جنتیوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر :73) 5 جنتیوں کو ملائکہ سلام کریں گے۔ (الفرقان :75) 6۔ جہنمیوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس :27) 7۔ جہنمیوں کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج :73) 8۔ جہنمیوں کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس :40) 9۔ خدا کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس :27) 10۔ مجرموں کے چہرے ڈرے اوراُوندھے ہوں گے۔ (الغاشیۃ:2) 11۔ کفار کے چہرے مرجھائے اور اڑے ہوئے ہوں گے۔ (القیامۃ:24) 12۔ جہنمیوں پر ملائکہ لعنت کرینگے۔ (لزمر :72)