سورة يس - آیت 76

فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

سوائے نبی ! ان کی باتیں آپ کے لیے موجب رنج نہ ہوں بلاشبہ جو کچھ یہ ظاہر کررہے ہیں اور جو کچھ چھپارہے ہیں ہم سب جانتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : شرک کی حقیقت اور اس کا انجام بتلانے کے بعد نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو رؤف اور رحیم بنایا تھا۔ ( التوبۃ:128) اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ العٰلمین بنایا۔ (الانبیاء :107) آپ نرم دل تھے۔ ( آل عمران :159) اپنی طبیعت اور منصب نبوت کی اہمیت کے پیش نظر آپ (ﷺ) صبح وشام لوگوں کو سمجھاتے، مگر مکہ کے لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سمجھنے کی بجائے آپ کی جان کے دشمن بن چکے تھے۔ انہوں نے بار ہا دفعہ آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کی اصلاح کی خاطر دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ رات کو تہجد میں رو رو کر دعائیں کرتے اور دن کو دعوت الی اللہ دیتے۔ آپ کی محنت کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ ایک صحابی (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے استفسار کیا کہ کیا اللہ کے رسول بیٹھ کر بھی نفل پڑھا کرتے تھے؟ ام المؤمنین (رض) نے فرمایا ہاں اس وقت جب آپ کو لوگوں نے چور چُور کردیا تھا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ () یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ)[ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافر ین، باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا] ” حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کیا نبی محترم (ﷺ) بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ ام المومنین (رض) نے فرمایا ہاں لوگوں نے آپ کو چور چُور کردیا تھا۔“ (قَالَ ہَنْدُ بْنُ اَبِیْ ہَالَۃَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مُتَوَاصِلَ الْاَحْزَنِ دَائِمَ الْفِکْرَۃِ لَیْثَتْ لَہٗ رَاحَۃٌ) [ الرحیم المختوم : باب کمال النفس ومکارم الاخلاق] ” ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) مسلسل غم سے دوچار رہتے، ہمیشہ غوروفکر فرماتے رہتے تھے۔ آپ کے لیے راحت نہ تھی۔“ (یعنی جب آپ خلوت میں ہوتے تو لوگوں کے غم میں مسلسل فکر مند رہتے۔) اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے کئی بار نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دی کہ آپ (ﷺ) کو ایک حد سے زیادہ غمگین نہیں ہونا چاہیے آپ کا کام لوگوں تک حق پہچانا ہے منوانا نہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کا معاملہ ہے آپ یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعلانیہ اور خفیہ کی ہوئی ہر حرکت کو جانتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کررہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بار نبی کریم (ﷺ) کو تسلی عطا فرمائی۔ 2۔ داعی الی اللہ کو ایک حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر حال میں لوگوں کے خفیہ اور اعلانیہ گفتگو اور معاملات سے واقف رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا نبی کریم (ﷺ) کو پریشانی کے وقت تسلی دینا : 1۔ کفار کی باتوں سے آپ پریشان نہ ہوں۔ (یٰسٓ:76) 2۔ کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے۔ ( الشعراء :3) 3۔ آپ اس لیے پریشان نہ ہوں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ( الکہف :6) 4۔ جو لوگ کفر میں جلدی کرتے ہیں وہ آپ کو پریشان نہ کردیں۔ (آل عمران :176) 5۔ آپ صبر کریں یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (الروم :60) 6۔ آپ صاحب عزم رسولوں کی طرح صبر کریں۔ (الاحقاف :35) 7۔ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر افسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو پریشانی میں مبتلا نہ کریں۔ (الاحقاف :6) 8۔ نبی (ﷺ) ! کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج :5) 9۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود :49)