سورة يس - آیت 59

وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

A) ( اور کہا جائے گا) اے مجرمو ! تم آج مومنوں سے الگ ہوجاؤ

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت59سے61) ربط کلام : جنتیوں کو جنت میں داخل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا جہنمیوں کو خطاب۔ محشر کے میدان میں جہنمیوں کو جنتیوں سے الگ کردیا جائے گا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس موقعہ پر جہنمیوں کو ان کے جرائم کے مطابق گروہوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ قرآن مجید کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اگلے مرحلے میں ہوگا۔ کیونکہ قرآن مجید کا سیاق و سباق بتلا رہا ہے کہ اس موقعہ پر تمام جہنمیوں کو اجتماعی خطاب ہوگا جس میں رب ذوالجلال انہیں وہ عہد یاد دلائیں گے جو عالم ارواح میں پوری بنی نوع انسان سے لیا تھا۔ ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ أَوْ تَقُولُواْ إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ﴾ (الاعراف : 172، 173) ” اور جب آپ کے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولادکونکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم شہادت دیتے ہیں۔ کہ آپ ہمارے رب ہیں فرمایا ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو کہ ہم اس عہد سے غافل تھے یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم ان کے بعد آئے کیا ہمیں ان کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے جو ان لوگوں نے کیا ؟“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ أَخَذَ اللّٰہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ اٰدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہٖ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قِبَلًا ﴿قَالَ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلٰی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ )[ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عباس (صحیح) ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرفہ کے مقام پر آدم اور اس کی اولاد سے وعدہ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پشت سے تمام اولاد نکالی جس کو پیدا فرمانا تھا۔ انھیں اپنے سامنے چیونٹیوں کی طرح پھیلایا پھر ان سے کلام فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اب قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہم تو اس سے غافل تھے یا تم کہو شرک تو ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے۔ کیا تو ہمیں باطل کام کرنے والوں کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔ مسائل: 1۔ اسرافیل کے دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے ساتھ ہی محشر کے دن کا آغاز ہوجائے گا۔ 2۔ قیامت کے منکر اس دن اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ تفسیربالقرآن : صراط مستقیم کا تعارف : 1۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ ( مریم :36) 2۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت کو چن لیا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ (الانعام :87) 3۔ اللہ کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یٰسٓ:61) 4۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر بے خبر ہیں۔ (الروم :40) 5۔ اللہ کی خالص عبادت کرنا صراط مستقیم پر گامزن ہونا ہے۔ (آل عمران :51) 6۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف :68) 7۔ یقیناً اللہ میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔ اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف :64) 8۔ آپ اسے مضبوطی سے پکڑ لیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف :43) 9۔ اے اللہ ہمیں صراط مستقیم دکھا۔ ( الفاتحہ :6) 10۔ اللہ تعالیٰ ہی ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (الحج :54) 11۔ صراط مستقیم کے سنگ میل۔ (الانعام : 151تا153) 12۔ ہر کسی کو صراط مستقیم کی ہی دعوت دینا چاہیے۔ ( الانعام :153) 13۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ:142) 14۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ تمّسک کا نتیجہ صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران :101)