سورة آل عمران - آیت 81

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس (کتاب) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے، اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 81 سے 82) ربط کلام : عیسائیوں اور یہودیوں کے الزام‘ بہانے اور جھوٹ کی تردید۔ یہودی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نام لے کر اور عیسائی جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے کہتے ہیں۔ ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ ہم اپنے انبیاء کے علاوہ کسی نبی پر ایمان نہ لائیں۔ ان کی کذب بیانی کی تردید کرتے ہوئے اس عہد کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم کے وقت انبیائے کرام سے لیا تھا کہ میں تمہیں کتاب وحکمت سے سرفراز کروں گا۔ لیکن ایک آخر الزمان پیغمبر آنے والا ہے جو تمہاری شریعتوں کی تائید کرے گا۔ جس کے دور میں وہ پیغمبر آئے اس نبی کا فرض ہوگا کہ وہ اس پر ایمان لائے اور اس کی نصرت وحمایت کرے۔ فرمایا کہ کیا تم اس بات کا اقرار اور میرے ساتھ وعدہ کرتے ہو؟ تمام انبیاء نے بیک زبان ہو کر اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ ہم نبی آخر الزمان پر ایمان لاتے ہوئے اس کی مدد کریں گے۔ فرمایا پھر گواہ رہنا اور میں بھی اپنی شہادت تمہارے ساتھ ثبت کرتا ہوں۔ یاد رکھنا! کہ جس نے اس عہد سے انحراف کیا وہ نافرمان سمجھا جائے گا۔ چنانچہ ہر نبی اور رسول نے اپنے دور نبوت میں اپنی امت کو ہدایت کی کہ جوں ہی خاتم المرسلین تشریف لائیں تو تمہارا فرض ہوگا کہ تم میری نبوت چھوڑ کر اس پر ایمان لا کر اس کی نصرت و حمایت کرنا۔ رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت کے لیے حضرت ابراہیم (ﷺ) نے دعامانگی اور اپنی دعا میں اس تمنا کا اظہار کیا کہ بارِالٰہ ! وہ آخری نبی مکہ معظمہ میں مبعوث فرمانا۔ اس طرح انہوں نے علاقے اور ایک شہر کی نشاندہی فرما دی (البقرۃ :129) ان کے بعد آپ کی رسالت کا ہر نبی اعلان کرتا رہا یہاں تک کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے آپ کے اسم گرامی سے بنی اسرائیل کو آگاہ فرمایا اس آخری رسول کا نام نامی اسم گرامی احمد ہوگا۔ (الصف :6) بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ یہ عہد انبیاء سے لینے کے بجائے ان کی وساطت سے ان کی امتوں سے لیا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن مجید دوٹوک انداز میں واضح کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ عہد انبیاء سے براہ راست لیا تھا۔ دراصل ان حضرات کو ﴿فَمَنْ تَوَلّٰی﴾ (کہ تم میں سے عہد سے پھر جائے) کے الفاظ سے مغالطہ ہوا ہے اس لیے کہ نبی تو عام آدمی کے ساتھ عہد شکنی نہیں کرتا چہ جائے کہ اللہ کے ساتھ انبیاء کی وعدہ خلافی کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کے بارے میں یہ سوچنا گناہ ہے لیکن بات کی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید نے کئی مقامات پر یہ اسلوب اختیار فرمایا ہے۔ یہ انداز اس لیے بھی اپنایا گیا کہ معاملہ رب ذوالجلال کے ساتھ ہورہا ہے۔ لہٰذا یہ عہد انبیائے عظام سے ہوا کیونکہ خالق کو اپنی مخلوق پر حق ہے کہ جس طرح چاہے خطاب فرمائے۔ یہاں عہد کے بجائے میثاق کا لفظ استعمال فرمایا جو اہمیت کے اعتبار سے بلند درجہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول محترم (ﷺ) اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اس طرح بھی خطاب فرمایا ہے : ﴿لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ﴾ [ الزمر :65] ” اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال برباد ہوجائیں گے۔“ ﴿وَلَوْ أَشْرَکُوْالَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [ الانعام :88] ” اور اگر یہ تمام انبیاء بھی شرک کا ارتکاب کرتے تو ان کے اعمال ضائع ہوجاتے۔“ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وصیت : ” میں دنیا میں اس لیے آیاہوں کہ اس اللہ کے رسول کی آمد کے لیے راستہ ہموار کروں جو دنیا کو نجات دلائے گا۔ لیکن خبردار! دھوکہ نہ کھانا، کیونکہ بے شمار جھوٹے نبی آئیں گے جو میرا نام لیں گے اور میری انجیل میں ملاوٹ کریں گے۔“ [ برناباس۔ باب71] ” وہ تمہارے وقتوں میں نہیں آئے گا بلکہ تمہارے کچھ عرصے کے بعد آئے گا جب کہ میری انجیل مسترد کردی جائے گی۔ وہ دنیا سے بت پرستی کا خاتمہ کرے گا اور ان لوگوں سے بدلہ لے گا جو مجھے آدمی سے بڑھ کر کچھ اور تصور کریں گے۔“ [ برناباس۔ باب71] مسائل : 1۔ رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت کا تمام انبیاء نے اقرار کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی شہادت ثبت فرمائی۔ تفسیربالقرآن : انبیاء ایک دوسرے کے مصدّق تھے : 1۔ نبی کریم (ﷺ) نے پہلے انبیاء کی تصدیق کی۔ (الصافات :37) 2۔ قرآن پہلی کتب کا مصدق ہے۔ (آل عمران :3) 3۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کی تصدیق کی۔ (آل عمران :50) 4۔ حضرت یحییٰ، عیسیٰ (علیہ السلام) کے مصدق تھے۔ (آل عمران :39)