مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ
یہ کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کرے، اور وہ اس کے باوجود لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ (٢٩) اس کے بجائے ( وہ تو یہی کہے گا کہ) اللہ والے بن جاؤ، کیونکہ تم جو کتاب پڑھاتے رہے ہو اور جو کچھ پڑھتے رہے ہو، اس کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے۔
فہم القرآن : (آیت 79 سے 80) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو کتاب‘ نبوت اور حکمرانی سے نوازا۔ اس لیے ان کے بہانوں میں ایک بہانہ یہ تھا کہ ہمیشہ سے کتاب‘ نبوت اور حکومت ہمیں ملتے آئے ہیں۔ اب ہم کسی دوسرے شخص کو نبی کیوں تسلیم کریں۔ یہاں اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب‘ حکومت اور نبوت سے نوازے تو وہ لوگوں کو اللہ کا بندہ بنانے کی بجائے اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ لہٰذا تمہیں لوگوں کو اپنا بندہ بنانے کی بجائے خود اللہ کے بندے بننا چاہیے یہی اسلام کی دعوت اور مسلمان ہونے کا تقاضا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) کے پاس وفد نجران آیا آپ نے ان کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق وحی کی صورت میں جب ٹھوس اور مکمل معلومات فراہم کردیں تو وہ لاجواب اور کھسیانے ہو کر کہنے لگے تو پھر ہمیں آپ کی عبادت کرنی چاہیے؟ ہمیں تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اسی طرح عبادت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے جواب میں یہ وضاحت نازل ہوئی کہ کسی بشر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب‘ نبوت وحکومت کے ساتھ سرفراز فرمائے تو وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حکم دینے کے بجائے اپنی بندگی پر آمادہ کرے۔ پیغمبر تو لوگوں کو رب کے بندے بنانے کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں اسی کی وہ تعلیم دیتے اور تبلیغ کرتے ہیں۔ وہ اس بات کا حکم بھی نہیں دیتے کہ لوگ ملائکہ اور انبیاء کورب یا اس کا جزو بنالیں وہ تمہیں کیونکر کفر کا حکم دے سکتے ہیں جب کہ تم مسلمان ہو۔ جہاں تک عیسیٰ (علیہ السلام) کا تعلق ہے تو وہ دوٹوک الفاظ میں کہا کرتے تھے کہ میرا اور تمہارا رب ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محشر کے میدان میں جب ان سے یہ سوال ہوگا کہ اے عیسیٰ ! کیا تو نے عیسائیوں کو یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو الٰہ بنالو ؟ تو عیسیٰ (علیہ السلام) تھر تھر اتے ہوئے رب ذو الجلال کے حضور عرض کریں گے کہ بارِالٰہ! ایسی بات میں کیونکر کہہ سکتا تھا جسے کہنے کی مجھے اجازت نہ تھی۔ اگر میں نے ایسی بات کہی ہے تو تجھے معلوم ہے۔ تو میرے دل کی حالت سے بھی واقف ہے جب کہ میں تیرے فیصلے کو نہیں جانتا۔ میں نے تو صرف یہ بات کہی تھی کہ اس اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے (المائدۃ:116، 117)۔ یہی بات رسول اللہ (ﷺ) نے اس موقع پر ارشاد فرمائی جب ایک صحابی نے ملک فارس سے واپسی پر آپ کے قدموں پر سجدہ کرنے کی کوشش کی تو آپ نے اسے پیچھے ہٹا تے ہوئے فرمایا کہ اگر میں نے سجدہ کرنے کی اجازت دینا ہوتی تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ ریز ہواکرے۔ لیکن یادرکھو! اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے اور کسی کے سامنے جھکنے کی اجازت نہیں ہے۔ (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) فَقُلْتُ إِنّیْ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَّسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِیْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ] ” حضرت قیس بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے انہیں بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ میں نے حیرہ میں دیکھا کہ وہ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا بتلائیے! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا ہے۔ اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔“ مسائل :1۔ کسی پیغمبر کو بھی اختیار نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ 2۔ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو اللہ ہی کا بندہ بننے کی تلقین فرماتے تھے۔ 3۔ آسمانی کتاب‘ حکومت اور کسی کو نبوت دینا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ 4۔ ملائکہ اور انبیاء یا کسی دوسرے کو الٰہ کا درجہ نہیں دینا چاہیے۔ 5۔ ملائکہ‘ انبیاء اور کسی بزرگ کو خدائی درجہ دینا کفر ہے۔ 6۔ شرک اور کفر باہم مترادف ہیں۔