إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(اس کے برخلاف) جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی کھائی ہوئی قسموں کا سودا کر کے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن نہ اللہ ان سے بات کرے گا، نہ اہیں (رعایت کی نظر سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کا حصہ تو بس عذاب ہوگا، انتہائی دردناک۔
فہم القرآن : ربط کلام : سلسلہ کلام گزشتہ سے پیوستہ۔ اہل کتاب عہدشکن اور ایمان فروش ہیں دنیوی مفاد کے لیے عہد توڑنے اور ایمان فروشی کی سزا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم، دین اور اس کی عظمت کے مقابلے میں دنیا کی بادشاہت اور دولت کی کوئی حیثیت نہیں۔ دین میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ سے عہد کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عہد اور حکم کو دنیا کی خاطر چھوڑنا عہد اور دین بیچنے کے مترادف ہے۔ اس جرم میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو قسموں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے نام کو ڈھال اور دنیاوی مفاد کا ذریعہ بناتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بازار میں اپنا سودا لگایا اور دوسرے مسلمان کو یہ کہہ کر سودا فروخت کیا کہ اللہ کی قسم ! مجھے اس کا اتنا منافع ملتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ [ رواہ البخاری : کتاب الشھادات، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ان الذین یشترون﴾ الخ] دین کے نام پر سیاسی، مالی اور سماجی مفادات اٹھانا دین کو بیچنے کے برابر ہے۔ اہل کتاب کے علماء کا یہ بھی شیوہ تھا کہ انہوں نے دین کو محض پیشہ کے طور پر اختیار کر رکھا تھا۔ وہ تعلیم وتعلّم اور تبلیغ واشاعت کا اتنا ہی کام کرتے تھے۔ جتنا ان کو معاوضہ ملتا اور فائدہ پہنچتا۔ ایسے مذہبی مجرموں کے لیے پانچ سزاؤں کا اعلان کیا گیا ہے 1۔ ان کے لیے آخرت میں کوئی اجر نہیں ہوگا ۔2 ۔اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا۔ 3 ۔اللہ تعالیٰ انہیں نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔ 4۔ انہیں گناہوں سے پاک نہیں کیا جائے گا ۔5 ۔ان کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ مسائل :1۔ آخرت کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر اور قلیل ہے۔ 2۔ دین کے بدلے دنیا کمانے والوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو اذّیت ناک عذاب دیں گے۔