سورة فاطر - آیت 9

وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ اللہ ہی تو ہے جوہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر ہم اس بادل کو کسی خشک علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے مری پڑی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں اسی طرح لوگو کا جی اٹھنا ہوگا

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: ربط کلام : برے اعمال پرخوش ہونے والے لوگ در حقیقت آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ان کے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا ثبوت بارش کے حوالے سے دیا اور سمجھایا گیا ہے۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اعتقاداً یا عملاً آخرت کے منکر ہوتے ہیں۔ اعتقادی طور پر آخرت کا انکار کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ سوچو اور دیکھو! کہ جب بارش کا نام و نشان نہیں ہوتا اور لوگ بارش کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں فصلیں ویران اور جڑی بوٹیاں گل سڑ جاتی ہیں۔ جس سے نہ صرف صحراء اور بیاباں بھیانک منظر پیش کرتے ہیں بلکہ شہروں میں بسنے والے ہزاروں لوگ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ شہروں کی چہل پہل پر مردگی چھا جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے سینکڑوں میلوں سے بادلوں کو اٹھا کر ایسے مقامات پر بارش برساتی ہیں جہاں کی زمین مردہ ہوچکی ہوتی ہیں یعنی وہ چیز اگاتی۔ بارش کے بعد وہی مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے جہاں صحراء نظر آتا تھا وہاں ہریالی اور سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ جو اللہ مردہ زمین سے نباتات پیدا کرتا ہے وہی قیامت کے دن اس زمین سے مردوں کو زندہ کرے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْنَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ)[ متفق علیہ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ ] (رواه مسلم:باب ما بین النفختین) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے کہا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھا جائے گی۔ لیکن دمچی کو نہیں کھائے گی انسان اس سے پیدا کیا جائے گا اور اسی سے جوڑا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہی ہواؤں کے ذریعے بادلوں کو چلاتا اور بارش برساتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو بارش کے بعد زندہ کرتا ہے۔ 3۔ قیامت کے دن اسی طرح ہی مردوں کو زندہ کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو دوبارہ پیدا کرے گا : 1۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن :7) 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام :60) 3۔ تمام مردوں کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام :36) 4۔ قیامت کے دن ” اللہ“ ہی سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ: 6تا18) 5۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمھیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام :12) 6۔ آپ فرما دیں تمھارے پہلے اور آخر والے سب کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعۃ: 47تا50) 7۔ پھر ہم تمھیں تمھاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ:56) 8۔ آپ فرما دیں اللہ ہی نے تخلیق کی ابتداء کی پھر دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو؟ (یونس :34) 9۔ ” اللہ“ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم :11)