قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ
اے پیغمبر آپ ان سے کہہ دیجئے میں تم کو صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں وہ یہ کہ تم دو دو اور اکیلے اکیلے اللہ کے واسطے کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو کہ تمہارے پیغمبر کو کچھ جنون ہے؟ وہ تو صرفایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تمہیں ڈرانے والے ہیں
فہم القرآن: ربط کلام : منکرین حق کو پے در پے پانچ استفسارات کرنے کے بعد سمجھایا گیا ہے کہ عذاب الٰہی سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے قول و کردار پر غور کرو۔ قرآن مجید اپنی دعوت کو جبر سے منوانے کی بجائے لوگوں کو غورو فکر کی دعوت دیتا ہے۔ اس لیے نبی اکرم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ انہیں فرمائیں کہ اللہ کے لیے دو، دو یا اکیلے اکیلے ہو کر سوچو کہ کیا مجھے جنون ہوگیا ہے؟ میں تو تمہیں سخت عذاب سے متنبہ کررہا ہوں کہ اگر تم اسی روش پر چلتے رہے تو شدید عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے اور تمہیں کوئی بھی بچانے والا نہ ہوگا۔ نبی کریم (ﷺ) لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود لوگ بالخصوص اہل مکہ آپکی دعوت پر غور کرنے کی بجائے آپ کو مجنون کہتے۔ حالانکہ آپ نے ان میں چالیس سال کا عرصہ گزارا تھا جب صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر سر عام دعوت پیش کی تو سب سے پہلے یہ سوال کیا تھا کہ بتاؤ میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ جواب میں لوگوں نے بیک زبان ہو کر کہا تھا کہ ہم نے آپ کوہر اعتبار سے سچا اور امین پایا ہے۔ (سیرت ابن ہشام) مگر اس کے باوجودکبھی آپ (ﷺ) کو مجنون کہتے اور کبھی جادو گر قرار دیتے تھے۔ حالانکہ بیت اللہ میں حجر اسود نصب کرنے کے وقت تمام لوگ آپ کی عقل ودانش کو خراج تحسین پیش کرچکے تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ خَرَجَ النَّبِیُّ (ﷺ) حَتّٰی صَعِدَ الصَّفَا فَجَعَلَ یُنَادِیْ یَابَنِیْ فِھْرٍ یَابَنِیْ عَدِیٍّ لِبُطُوْنِ قُرَیْشٍ حَتَّی اجْتَمَعُوْا فَجَعَلَ الرَّجُلُ اِذَا لَمْ یَسْتَطِعْ اَنْ یَّخْرُجَ اَرْسَلَ رَسُوْلًا لِیَنْظُرَ مَاھُوَ فَجَاءَ اَبُوْ لَھَبٍ وَقُرَیْشٌ فَقَالَ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ ھٰذَا الْجَبَلِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَنَّ خَیْلًا تَخْرُجُ بالْوَادِیْ تُرِیْدُ اَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ اَکُنْتُمْ مُصَدِّقِیَّ قَالُوْا نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا قَالَ فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ قَالَ اَبُوْ لَھَبٍ تَبًّا لَّکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا فَنَزَلَتْ تَبَّتْ یَدَااَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ) [ رواہ البخا ری : باب ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ﴾] ” عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں“ تو نبی (ﷺ) نکلے اور صفا پہاڑی پر چڑھ گئے‘ آپ پکارنے لگے‘ اے بنو فہر! اے بنوعدی! اسی طرح آپ نے قریش کے تمام قبائل کو مخاطب کیا۔ یہاں تک کہ وہ آپ (ﷺ) کے گرد جمع ہوگئے۔ اور جو شخص نہ آسکا تو اس نے معلوم کرنے کے لیے کہ کیا معاملہ ہے، اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ ابولہب اور قریش کے لوگ بھی آئے۔ آپ نے فرمایا‘ مجھے بتاؤ‘ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کی اوٹ سے نکل رہا ہے دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ایک لشکر وادی سے نکل کر تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے، تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ سب نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ ہم نے آپ کے بارے میں ہمیشہ سچائی کا تجربہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا‘ میں تمہیں اس شدید عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہیں پیش آنے والا ہے۔ یہ سن کر ابو لہب کہنے لگا، تو تباہ ہوجائے کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ اس پر یہ سورت نازل ہوئی ” ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ و بربادہو جائے۔“ مسائل: 1۔ آپ (ﷺ) نے لوگوں کو بار بار غور و فکر کی دعوت دی۔ 2۔ اہل مکہ آپ (ﷺ) کی دانشمندی کا اعتراف کرنے کے باوجود آپ کو مجنون کہتے تھے۔ 3۔ آپ (ﷺ) لوگوں کو عذاب شدید سے متنبہ فرمایا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: نبی کریم (ﷺ) پر لگائے گئے الزامات : 1۔ کفار نبی کریم (ﷺ) کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ (یونس :2) 2۔ کفار آپ (ﷺ) کو کاہن اور مجنون کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ آپ کاہن اور مجنون نہیں ہیں۔ (الطور :29) 3۔ کفار آپ (ﷺ) کو شاعر کہتے تھے۔ (الطور :30) 4۔ کفار نبی اکرم (ﷺ) کو جادوگر اور کذّاب کہتے تھے۔ (ص :4) 5۔ کفار آپ (ﷺ) پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن مجید خود بنا لیتے ہیں۔ (النحل :101) 6۔ کفار نے انبیاء ( علیہ السلام) کو جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذّاریات :52)