سورة سبأ - آیت 34

وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر اس بستی کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ جوپیغام تم لے کرآئے ہو ہم اس کے منکر ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت34سے35) ربط کلام : لوگوں کی گمراہی میں مال دار طبقہ کا کردار۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے جس بستی میں بھی لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والا بھیجا۔ وہاں کے مال دار طبقے نے ہمیشہ انہیں کہا کہ جس دعوت کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے انکار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے اور کہتے تھے کہ ہم اس ڈرانے والے اور اس کی اتباع کرنے والوں سے مال اور افرادی قوت میں زیادہ ہیں اور ہم کسی صورت عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ یہی سوچ اور کردار مکہ والوں کا تھا۔ وہ اپنی افرادی قوت اور مال پر اتراتے ہوئے نبی (ﷺ) کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو اور تیری پیروی کرنے والے حق پر ہیں تو پھر تمہیں دنیا کا مال و دولت کیوں نہیں دیا گیا ؟ تمہارے بقول اگر ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک برے اور مغضوب ہیں تو ہم پر عذاب نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ تمہارے بار بار اعلان کرنے کے باوجود ہم پر عذاب نازل نہیں ہوا تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ ہم پر راضی ہے اس لیے اس نے ہمیں مال ودولت، وقار اور اقتدار دے رکھا ہے اور قیامت کے دن بھی ہمیں سزا نہیں دی جائے گی۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () مَرَّ بالسُّوْقِ دَاخِلًا مِّنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ وَالنَّاسُ کَنَفَتُہٗ فَمَرَّ بِجَدْیٍ أَسَکَّ مَیِّتٍ فَتَنَاوَلَہٗ فَأَخَذَ بِأُذُنِہٖ ثُمَّ قَالَ أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنَّ ھٰذَا لَہٗ بِدِرْھَمٍ فَقَالُوْا مَانُحِبُّ أَنَّہٗ لَنَا بِشَیْءٍ وَمَا نَصْنَعُ بِہٖ قَالَ أَتُحِبُّوْنَ أَنَّہٗ لَکُمْ قَالُوْا وَاللّٰہِ لَوْکَانَ حَیًّاکَانَ عَیْبًا فِیْہِ لِأَنَّہٗ أَسَکَّ فَکَیْفَ وَھُوَ مَیِّتٌ فَقَالَ فَوَاللّٰہِ لَلدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذَا عَلَیْکُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) ایک جانب سے بازار میں داخل ہوئے آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : ہم تو اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے۔ ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب تو یہ مردہ ہے اس لیے ہم اسے کیسے پسند کریں۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا ہی حقیر ہے۔ اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔“ مسائل: 1۔ مال دارطبقہ کی اکثریت نے ہمیشہ انبیائے کرام کی دعوت کوٹھکرایا ہے۔ 2۔ مال دار لوگوں کی اکثریت اپنے مال اور افرادی قوت پر اترایا کرتی ہے۔ 3۔ بےدین اور مال دار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر گرفت نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: مال دار لوگوں کا کردار اور مال کی حقیقت : 1۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف :7) 2۔ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں قلیل اور حقیر ہے۔ (التوبۃ:38) 3۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے۔ (العنکبوت :64) 4۔ دنیاکی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران :185) 5۔ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی معمولی فائدہ ہے۔ (الرعد :26) 6۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا ہے۔ (الحدید :20) 7۔ دنیا کی زندگی کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی بارش کی طرح ہے۔ (یونس :24) 8۔ مالدار بخل کو اپنے لیے اچھا خیال کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران :180) 9۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر ہے۔ (البقرۃ:174)