سورة سبأ - آیت 7

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور کافر کہتے ہیں بھلا، ہم تمہیں ایسا آدمی بتاتے ہیں جو تم کو خبر دیتا ہے کہ جب تم مر کرریزہ ریزہ ہوگئے تو تم نئے سرے سے پیدا کیے جاؤ گے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت7سے8) ربط کلام : منکرین قیامت کی سب سے بڑی دلیل اور اس کا ردّ۔ منکرین قیامت ہمیشہ سے یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ جب انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو اسے دوبارہ کس طرح زندہ کیا جائے گا۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) کے سامنے یہی دلیل ایک شخص نے دی جس نے اپنے ہاتھ پر ایک مردہ انسان کی بوسیدہ ہڈی رکھ کر اسے مسلتے ہوئے کہا کہ اے محمد (ﷺ) اس خاک میں کون جان پیدا کرے گا؟ جس کا تفصیلی جواب سورۃ یٰس کی آخری پانچ آیات میں دیا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی منکرین قیامت لوگوں کو اپنا ہم فکر رکھنے کے لیے کہا کرتے تھے کہ ہم تمہیں ایسا شخص نہ دکھلائیں جو اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ جب تم مر کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو تمہیں از سرنو پیدا کرلیا جائے گا۔ ہمارے خیال کے مطابق یہ شخص جھوٹ بولتا ہے یا پھر اسے پاگل پن کا مرض لاحق ہوچکا ہے۔ کفار کے بے ہودہ الفاظ اور پراپیگنڈہ کے جواب میں یہاں صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں اور انہیں ہر صورت عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ دنیا میں ان کے لیے عذاب یہ ہے کہ بعض بھلے کام کرنے کے باوجود ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ہاں اجرپانے سے مایوس ہوتے ہیں۔ ان کی صرف یہی ایک سزا نہیں بلکہ آخرت کے منکر ہونے کی وجہ سے یہ موت سے بھی ڈرتے ہیں۔ اگر ان کا مقابلہ مجاہدین اسلام سے ہو تو آخرت کے انکار کی وجہ سے یہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جہاں تک آخرت کے عذاب کا معاملہ ہے یہ لوگ ہمیشہ جہنم میں رکھے جائیں گے۔ ان کی گمراہی کو دور کی گمراہی اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان بنیادی طور پر دو ہی وجہ سے ہدایت کی جستجو کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت میں اپنے اعمال کی جوابدہی کا تصور۔ یہی دو سبب انسان کو حقیقت پر غور کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ منکرین قیامت کا ذہن ان دونوں باتوں سے خالی ہوتا ہے جس وجہ سے ان کا ہدایت پانا بعید از قیاس قرار دیا گیا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ [ رواہ مسلم : باب مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ] مسائل: 1۔ منکرین قیامت دنیا اور آخرت میں سزا پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: گمراہ لوگ : 1۔ جو ایمان کو کفر کے ساتھ بدل دے وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا۔ (البقرۃ:108) 2۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (النساء :116) 3۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (النساء :136) 4۔ جو نافرمانی کرے اللہ اور اس کے رسول کی وہ گمراہ ہوگیا۔ (الاحزاب :36) 5۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال کے ساتھ فاسق ہی گمراہ ہوتے ہیں۔ ( البقرۃ:26) 6۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پامال کرنے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (المائدۃ:12) 7۔ کفار سے دلی دوستی رکھنے والا سیدھی راہ سے دور چلا جاتا ہے۔ (الممتحنۃ:1) 8۔ دین کے معاملات میں غلو کرنے والا سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ :77) 9۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (ابراہیم :30)