وَدَّت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
(مسلمانو) اہل کتاب کا ایک گروہ یہ چاہتا ہے کہ تم لوگوں کو گمراہ کردے، حالانکہ وہ اپنے سوا کسی اور کو گمراہ نہیں کر رہے، اگرچہ انہیں اس کا احساس نہیں ہے۔
فہم القرآن : (آیت 69 سے 72) ربط کلام : اہل کتاب یہ جاننے کے باوجود کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی اور عیسائی نہیں تھے۔ پھر بھی اپنے مذہب کو تقویت دینے اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے ان کی شخصیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ گمراہ فرقوں کی ایک یہ بھی نشانی ہوتی ہے کہ وہ دلائل کی کمزوری کو شخصیات سے نسبت اور ان کی عقیدت کے حوالے سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن مجید مسلمانوں کو باربار اہل کتاب کی سازشوں اور عادتوں سے آگاہ کرتا ہے کہ اہل کتاب کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح تمہیں صراط مستقیم سے گمراہ کردیں۔ ان کی بد حرکتوں اور ان کے خبث باطن کے باوجود قرآن مجید انہیں سمجھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ قرآن جب بھی انہیں خطاب کرتا ہے تو اہل کتاب کے معزز لقب کے ساتھ‘ تاکہ انہیں اپنے مرتبے کا احساس ہو اور وہ بری عادتیں چھوڑنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اسی لیے ایک دفعہ پھر انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ حقیقت جاننے کے باوجود تم اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو؟ اے اہل کتاب تمہیں حق چھپانے اور حق کو باطل کے ساتھ ملانے سے بھی باز آنا چاہیے۔ کیونکہ تم اس کے گناہ اور نقصان سے واقف ہو۔ جب کسی معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ حقائق کا انکار کریں یا حق وباطل کے التباس کے جرم میں ملوث ہوجائیں تو پھر عوام الناس کا ہدایت تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دراصل عیسائیوں اور یہودیوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ لوگوں میں اسلام اور نبی آخر الزمان (ﷺ) کے بارے میں اس قسم کے شکوک وشبہات پیدا کردیے جائیں کہ جن سے لوگ از خود اسلام سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ اسی ذہنیت سے انہوں نے سازشوں کونیا رنگ دے کر یہ منصوبہ بنایا کہ اپنے میں سے کچھ لوگوں کو صبح کے وقت محمد عربی (ﷺ) کے پاس بھیجا جائے۔ وہ ان کے سامنے اسلام کے اوصاف گنواتے ہوئے برملا ایمان لانے کا اظہار کریں لیکن ٹھیک دن کے آخر میں اسلام سے براءت کا اعلان کردیں تاکہ ہم مسلمانوں کو باور کروا سکیں کہ اگر اسلام میں سچائی اور آپ کے نبی میں کوئی خوبی ہوتی تو یہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ مسلمان ہونے کے بعد کیوں اسے چھوڑتے؟ اس طرح مسلمان شکوک وشبہات کا شکار ہوں اور وہ بھی واپس پلٹنے کے لیے سوچیں۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اگر اہل کتاب بالخصوص یہودیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا پتہ چلتا ہے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بہی خواہ بن کر ملت اسلامیہ کو بار ہانقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جس کی ابتدا عبداللہ بن سبا نے حضرت عثمان (رض) کی خلافت میں کی تھی اور اس کے نتیجے میں جنگ جمل اور جنگ صفین واقع ہوئیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ کاش ! مسلمان اور ان کے سیاسی و مذہبی راہنما اہل کتاب خاص کر یہودیوں کی سازشوں کو سمجھ جائیں۔ مسائل :1۔ اہل کتاب مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ 2۔ کسی کو گمراہ کرنے والا خود گمراہ ہوا کرتا ہے۔ 3۔ اہل کتاب حقائق جاننے کے باوجود دین اسلام کا انکار کرتے ہیں۔ 4۔ اہل کتاب جان بوجھ کر حق و باطل کی آمیزش کرتے ہیں۔ 5۔ اہل کتاب میں سے ایک گروہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا آرہا ہے۔ تفسیربالقرآن :اہل کتاب کے مذموم خیالات : 1۔ اہل کتاب کی کوشش ہے کہ مسلمان بہک جائیں۔ (آل عمران :69) 2۔ اہل کتاب حقائق جاننے کے باوجود اللہ کی آیات کے منکر ہیں۔ (آل عمران :70) 3۔ اہل کتاب جانتے ہوئے بھی حق کو باطل کے ساتھ ملاتے اور کتمان حق کرتے ہیں۔ (آل عمران :71) 4۔ اہل کتاب کا مسلمانوں کو ورغلانے کا عجب انداز۔ (آل عمران : 72، 73)