قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
(مسلمانو ! یہود و نصاری سے) کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، ( اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو : گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : توحید حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت اور مشن ہے۔ لہٰذا اہل کتاب کو اس کی پھر دعوت دی جارہی ہے۔ سورۃ البقرہ میں یہودیوں کو اور سورۃ آل عمران میں نصاریٰ کو مفصل خطاب کرنے کے بعداب دونوں کو ایسی بات کی طرف دعوت دی جارہی ہے جو تمام انبیاء کی دعوت کی ابتدا اور انتہا ہوا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف پیرائے میں اس بات کی وضاحت و صراحت فرمائی ہے کہ ہم نے جتنے انبیاء مبعوث کیے وہ یہی دعوت دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ہر قسم کے طاغوت کا انکار کردو۔ الانعام : 88میں اٹھارہ پیغمبروں کا نام بنام ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر یہ شرک کرتے تو ان کے سب اعمال ضائع کردیے جاتے۔ یہاں حکم دیا جارہا ہے کہ اے خاتم المرسلین! ان کو دعوت عام دو کہ آؤ اس بات پر متفق ہوجائیں۔ جو آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت تھی وہی ہماری دعوت ہے۔ اگر لوگ یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کردیں تو آپ فرما دیں کہ گواہ رہنا ہم تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کے تابع فرمان ہیں۔ اس دعوت کے تین بنیادی اصول ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔2۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ 3۔ اللہ کی ذات کے سوا کسی کو معبود کا مقام نہ دیا جائے اس دعوت کا منطقی نتیجہ ہے نبی معظم کو اللہ کا آخری رسول ماناجائے کیونکہ آپ ہی توحید کی دعوت دینے والے ہیں۔ یہی دعوت آپ نے سلطنت رومہ کے فرماں روا ہرقل کو ایک مراسلہ کے ذریعے دی تھی۔ [ رواہ البخاری : کتاب بدء الوحی] مسائل :1۔ اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان قدر مشترک توحید ہے۔ 2۔ سب کو توحید کی دعوت دینا چاہیے۔