لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
بے شک رسول اللہ کی زندگی میں ان کے لیے (پیروی اور اتباع کا) ایک بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت سے ڈرنے (یا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے) اور اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے ہوں (٥)۔
فہم القرآن: ربط کلام : حالات جیسے بھی ہوں مسلمانوں تمہارے لیے رسول معظم (ﷺ) کی ذات ہی اسوہ حسنہ ہے اور ہونی چاہیے۔ اس فرمان کی اہمیت اور فرضیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سابقہ آیات کا خلاصہ ذہن میں رکھا جائے تاکہ اس فرمان کی اہمیت اور فرضیت کا تصور پوری طرح اجاگر ہوجائے اس تصور سے ہی ایک مسلمان کی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے غزوہ احزاب جسے تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں غزوہ خندق لکھا جاتا ہے اس کے خوف ناک اور بھیانک منظر کی تصویر چند سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔ 1۔ موسم نقطہ انجماد سے نیچے گر چکا ہے جس وجہ سے سردی اس قدر زیادہ اور ناقابل برداشت ہے کہ خیموں میں بیٹھے ہوئے مجاہدوں کی بغلیں بج رہی ہیں۔ خیمے سے باہر نکلنے کے خیال ہی سے جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ 2۔ سروردو عالم (ﷺ) نے بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دوپتھر باندھے ہوئے ہیں صحابہ (رض) روٹی کے خشک ٹکڑے اور بوسیدہ گوشت کھانے پر مجبور ہیں۔ اور کچھ نے کمر سیدھی رکھنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں۔ 3۔ مدینہ میں منافقین کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ 4۔ یہودیوں نے آپ (ﷺ) کے ساتھ کیا ہوا بقائے باہمی کا معاہدہ توڑ کر حملہ آوروں کے ساتھ سازباز کرلی ہے۔ اور عورتوں کے کیمپ پر دھاوا بولنے کے لیے تیاری کرچکے ہیں۔ 5۔ مدینہ میں چند مسلمانوں کے سوا باقی مسلمان خندق کی حفاظت اور اپنے دفاع میں رات دن مصروف ہیں۔ 6۔ دشمن پوری قوت کے ساتھ باربار خندق عبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 7۔ مسلمانوں کی دفاعی پوزیشن اس قدر کمزور ہے کہ آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ادھر ادھر توجہ نہیں کرسکتے جس وجہ سے سرور دوعالم (ﷺ) اور صحابہ کرام (رض) ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں آدھی رات کے وقت پڑھنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ 8۔ دشمن دس ہزار سورماؤں کے ساتھ پچیس دن سے مدینے کی چھوٹی سی ریاست کا محاصرہ کیے ہوئے ہے جس بنا پر باہر سے مدینہ میں کسی چیز کا آنا ناممکن ہوچکا ہے جس وجہ سے بچے بھوک سے بلک بلک کر روتے ہیں۔ 9۔ خوف و ہراس اور دشمن کے دباؤ کی وجہ سے مسلمانوں کے کلیجے منہ کی طرف آچکے ہیں جس کا نقشہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ﴾ [ الاحزاب :10] ” جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل گلے میں اٹک گئے“ حالات کے اس تناظر میں حکم ہوتا ہے کہ اے مسلمانو! اللہ کا رسول (ﷺ) تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ خاص طور پر اس شخص کے لیے نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید، آخرت کے حساب و کتاب پریقین اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنے والا ہے۔ اس فرمان میں اسوہ حسنہ سے مراد رسول اکرم (ﷺ) کی حیات طیبہ کا کوئی خاص پہلو مراد نہیں۔ بلکہ آپ (ﷺ) کی پوری حیات مبارکہ امت کے لیے عظیم اور حسین نمونہ ہے۔ جس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حالات کتنے پرفتن ہوں مسائل: اور مصائب کا طوفان سر سے گزرچکا ہو مشکلات پہاڑوں کی مانند سامنے کھڑی ہوں، کلیجہ حلق میں آکے اٹک چکا ہوباد مخالف طوفان کی شکل اختیار کر جائے غربت اپنی انتہاء کو پہنچ جائے۔ موت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنے کھڑی ہوجائے ان حالات میں بھی مسلمان کے لیے اسوہ رسول (ﷺ) سے بڑھ کر کوئی اسوہ قابل عمل نہیں ہوسکتا البتہ اس پر وہی شخص ایمان لائے گا اور عمل کرے گا جو اپنے رب کی ملاقات کی امید، آخرت پر یقین اور اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد کرنے والا ہے ” اللہ“ کی یاد دل اور زبان سے بھی ہو اور مسلمان کا عمل بھی اس کی شہادت دیتا ہو۔ مسائل: 1۔ رسول اکرم (ﷺ) مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ 2۔ ہر حال میں اللہ کی ذات اور اس کے فرمان کو یاد رکھنا چاہیے۔ 3۔ جو شخص اللہ، آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ ہر صورت رسول اللہ (ﷺ) کو اپنا اسوہ بنائے گا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنے کے فائدے : 1۔ اللہ کا ذکر صبح اور شام کثرت سے کرو۔ (آل عمران :41) 2۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں نکل جاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الجمعۃ:10) 3۔ ایام تشریق میں اللہ کو زیادہ یاد کرو۔ (البقرۃ:202) 4۔ جب حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (البقرۃ:198) 5۔ جنگ کے دوران اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الانفال :45) 6۔اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔(الاحزاب:35) 7۔تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کرونگا۔(البقرۃ:152)