اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ ۖ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ پہلے ہوائیں چلتی ہی پھر ہوائیں بادل کو حرکت میں لاتی ہیں پھر وہ (اللہ) جس طرح چاہتا ہے انہیں فضا میں پھیلا دیتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادلوں میں سے مینہ نکل رہا ہے پھر جن لوگوں کو بارش کی یہ برکت ملنی تھی وہ خوش ہوجاتے ہیں
فہم القرآن: (آیت48سے49) ربط کلام : نبوت کے بیان کے بعد توحید کے دلائل دئیے جاتے ہیں۔ جس ” اللہ“ نے اپنی پہچان کے لیے انبیاء کرام (علیہ السلام) بھیجے۔ وہی ہوائیں چلاتا ہے جو ابر کرم کو اٹھاتی، فضا میں پھیلاتی اور برساتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ بادلوں کو ٹکڑیوں کی صورت میں تقسیم کرتا ہے پھر اسی کے حکم سے بادلوں سے بارش برستی ہے۔ بارش برسنے سے پہلے لوگ مایوسی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے بارش سے سیراب کرتا ہے جن پر بارش برستی ہے وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ بارش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ اس پر انسان سوچے تو اسے معلوم ہوجائے کہ لوگوں کو سیراب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کس طرح بارش کا انتظام کرتا ہے۔ جہاں بارش برستی ہے غور فرمائیں سمندر اس مقام سے کتنی دورہوتا ہے۔ سمندر کا پانی سورج کی تپش سے بخارات کی صورت میں اٹھتا ہے جسے ہوائیں اٹھا کر ایک خاص بلندی پر لے جا کر کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ نہ سورج کی تپش سے پانی خشک ہوتا اور نہ ہی ہوا کی گرفت سے نکل کر نیچے گرتا ہے۔ بادلوں کی شکل میں لاکھوں، کروڑوں ٹن پانی ہوائیں ادھر ادھر لیے پھرتی ہیں کیا مجال کہ کوئی بادل جوں کا توں کہیں گر جائے بادل وہاں برستا ہے جہاں اسے اللہ تعالیٰ برسنے کا حکم دیتا ہے۔ اب بارش برسنے کے انداز اور رفتار پر غور فرمائیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں بادل یکدم اپنا پانی بہادے اگر ایسا ہوتا تو بستیوں کی بستیاں غرقاب ہوجاتیں اور زمین پر کوئی چیز باقی نہ رہتی کیا بخارات کا بنانا، ہواؤں کا اٹھانا اور فضا میں بادلوں کو ادھر ادھر لیے پھرنا پھر قطرہ قطرہ کرکے پانی برسنا اور اس سے ساری کے ساری فضا اور درختوں کے پتوں کو غسل دینا کیڑے مکوڑوں سے لے کر پرندوں تک پانی پہنچاناکسی حکومت کے بس کا کام ہوسکتا ہے؟ (بارش کے بارے میں نبی (ﷺ) سے یہودیوں کا سوال اور آپ کا جواب اس سورۃ کی آیت 24کی تفسیر میں دیکھیں۔) (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ أَنَسٌ أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) مَطَرٌ قَالَ فَحَسَرَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) ثَوْبَہُ حَتَّی أَصَابَہُ مِنَ الْمَطَرفَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ لِمَ صَنَعْتَ ہَذَا قَالَ لأَنَّہُ حَدِیثُ عَہْدٍ بِرَبِّہِ تَعَالَی ) [ رواہ مسلم : باب الدُّعَاءِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ ] ” حضرت انس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول (ﷺ) کے ساتھ تھے۔ بارش ہوئی تو رسول (ﷺ) نے اپنے جسم سے کپڑا ہٹایا۔ بارش کا پانی آپ کے جسم مبارک کو لگا۔ ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا میں نے ایسے اس لیے کیا کیونکہ بارش اپنے رب سے نئی نئی ملاقات کرکے آئی ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِذَا اسْتَسْقَی قَال اللَّہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہَائِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ)[ رواہ ابو داؤدد : باب رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ] ” حضرت عمرو بن شعیب (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) جب بارش کے لیے دعا کرتے تو فرماتے : اللّٰہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہِیمَتَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ ” اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے مردہ زمین کو زندہ کردے“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہی ہواؤں کے ذریعے بادل اٹھاتا اور پھر اپنے حکم سے لوگوں کو پانی پلاتا ہے۔ 2۔ لوگ بارش برسنے سے خوش ہوجاتے ہیں۔ 3۔ بارش برسنے سے پہلے انسان کے چہرے پر ناامیدی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں بارش کا ذکر : (النمل :60) (الاعراف :57) (البقرۃ :164) (لقمان :34) (ہود :52) (النحل :22) (نوح : 10۔12) (النور :43)