فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
پھر جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ کفر پر آمادہ ہیں، تو انہوں نے (اپنے پیرووں سے) کہا : کون کون لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہوں؟ حواریوں (٢٢) نے کہا : ہم اللہ ( کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لاچکے ہیں، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 52 سے 53) ربط کلام : عیسائیوں کا اللہ تعالیٰ کی توحید سے انکار اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی پکار۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے یہودیوں کو راہ راست پر لانے کے لیے لازوال اور انتھک جدوجہد فرمائی اور ایسے معجزات دکھائے جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ مگر یہودی اس قدر متلوّن مزاج، موقع شناس، نافرمان اور مکار قوم ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جانے کے بعد انہوں نے انبیاء اور مصلحین کے ساتھ ایسا گھناؤ نا کردار ادا کیا کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسے معجزات پیش فرمائے جو اپنی تاثیر اور نوعیت کے اعتبار سے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات سے بڑھ کر تھے۔ خطاب اور گفتگو کا ملکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی معجزانہ طور پر عطا ہوا تھا۔ وہ ایسی مدلّل، مؤثر اور حکیمانہ گفتگو فرماتے کہ بڑے سے بڑا مخالف بھی انہیں قلبی طور پر اللہ کا بندہ اور نبی تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ زبور کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بارہ سال کی عمر میں حضرت مسیح نے پہلی بار ہیکل میں تعلیم دی۔ اس کم سنی کے باوجود ان کی تعلیم میں حکمت ومعرفت، فصاحت وبلاغت اور لب ولہجہ میں عظمت وجلالت اور رعب و دبدبہ کا عالم یہ تھا کہ فقیہ، فریسی، سردار، کاہن اور ہیکل کا تمام عملہ دم بخود رہ گیا۔ حیرانی کے عالم میں وہ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ کون ہے؟ جو اس شان سے بات کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے اس کو خاص ملکہ عطا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے اہل علم اور یہودیوں کو ایسے معجزات دکھائے کہ لوگ ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے۔ اس وقت یونان کے لوگ طب میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اس دور میں بقراط، ارسطو، افلاطون اور بڑے بڑے شہرۂ آفاق اطباء اور سائنسدان ہوچکے تھے وہ پیدائشی نابینے اور کوڑھے کا علاج نہ کرسکے لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ایسے معجزے پیش کیے کہ یہ لوگ ان کے سامنے طفل مکتب کے طور پر کھڑے بے بس دکھائی دیتے تھے۔ مٹی کا پرندہ بنانا، مردے کو زندہ کرنا، لوگوں کے کھائے پیے اور جمع پونجی کے بارے میں خبر دینا، بڑے بڑے حکماء اور نجومی ان باتوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور خطبات نے بنی اسرائیل میں ایک حرکت اور انقلاب برپا کردیا۔ وہ جہاں جاتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے۔ ان کا پر جمال اور ہشاش بشاش چہرہ دیکھ کر لوگ پروانہ وار ان کی طرف لپکے آتے گویا کہ قوم میں ایک انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر یہودی غضب ناک ہوئے اور انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف الزامات کا طوفان اٹھایا اور لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے ان کے خلاف سازشوں کا ایک طویل منصوبہ تیار کیا۔[ یوحنا باب 94بحوالہ تدبر قرآن] حالات اس قدر نازک صورت حال اختیار کرگئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باہر نکلنا بھی مشکل ہوگیا۔ اس صورت حال میں انہوں نے ہر جگہ لوگوں کو بتلایا اور سمجھایا کہ میری دعوت قبول کرو اسی میں تمہاری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے لیکن حکومت کے خوف، یہودیوں کے الزامات اور سازشوں کے ڈر سے لوگ ان سے دور بھاگ گئے۔ بالآخر انہوں نے اپنے شاگردوں کو اللہ کے نام پردہائی دی کہ کون ہے جو اللہ کے لیے میرا ساتھ دے؟ ہزاروں شاگردوں میں سے صرف بارہ آدمیوں نے موت کی پروا کیے بغیر کہا کہ ہم ہیں اللہ کی خاطر آپ کی نصرت وحمایت کرنے والے اور اللہ پر ایمان لانے والے ہیں۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقین دلایا اور کہا کہ گواہ رہنا کہ ہم اسلام پر مرتے دم تک قائم رہیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور بھی ہماری فریاد ہے کہ وہ ہمیں آپ کا تابع دار اور آپ کے ساتھ کلمہ حق کی شہادت دینے والے شمار فرمائے۔ مسائل :1۔ داعی اپنے متبعین کی جانچ اور ان کا امتحان لے سکتا ہے۔ 2۔ اللہ کے رسول کی اتباع کرنا حق کی شہادت دینا ہے۔ 3۔ اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا چاہیے۔ تفسیربالقرآن :حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری : 1۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار۔ (الصف :14) 2۔ حواریوں کی پکار کہ ہم انصار اللہ ہیں۔ (الصف :14) 3۔ امت محمدیہ کو حکم کہ ایمان والو! اللہ کے انصار بن جاؤ۔ (الصف :14) 4۔ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ (محمد: 7)