سورة العنكبوت - آیت 63

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ کس نے آسمان سے تدریجا پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے وہ اللہ ہی ہے آپ کہیے سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے لیکن اکثر لوگ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت63سے64) ربط کلام : مشرکین سے ایک اور سوال اور دنیا کی حیثیت۔ اے پیغمبر (ﷺ) ان سے سوال کریں کہ آسمان سے کون بارش برساتا ہے اور اس بارش کے ساتھ مردہ زمین کو کون زندگی عطا کرتا ہے؟ لا محالہ ان کا جواب ہوگا کہ بارش برسانے والا اور اس کے ساتھ نباتات اگانے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ انہیں فرمائیں کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت ماننے کے لیے تیار نہیں جس دنیا کی خاطر یہ لوگ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں یہ دنیا کھیل تماشا کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی یقیناً آخرت کا گھر ہمیشہ کے لیے ہے۔ کاش لوگ یہ حقیقت پا جائیں۔ کفار کے اعتراف کے جواب میں اس لیے اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ توحید کا عقیدہ ٹھوس دلائل اور حقائق پر مبنی ہے جس کا انکار کرنا پرلے درجے کے مشرک کے لیے بھی ممکن نہیں لیکن اس کے لیے عقل سے کام لینا ضروری ہے جو شخص اپنے ضمیر سے کام لے اور تعصب سے بچے وہ توحید کا اقرار اور شرک سے اجتناب کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جہاں تک شرک کا تعلق ہے اس کی بنیاد کے بارے میں غور کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس کے پیچھے جلد بازی دنیوی مفاد اور بے عقلی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے ارشاد ہوا ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں۔ جس طرح کھیل تماشا سے وقتی اور عارضی طور پر لطف اٹھایا جاتا ہے اسی طرح ہی دنیا کا معاملہ ہے جس کی نعمتیں ناپائیدار اور ان کا لطف عارضی ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ نَامَ رَسُول اللَّہِ () عَلَی حَصِیرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہِ فَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَاءً فَقَالَ مَا لِی وَمَا للدُّنْیَا مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی أَخْذِ الْمَال ” حضرت عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول! آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیں ؟ آپ نے فرمایا : میرا دنیا کے ساتھ ایک مسافر جیسا تعلق ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () بِبَعْضِ جَسَدِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ القُبُوْرِ) [ رواہ البخاری : باب قول النبی () کُنْ فِی الدُّنْیَا۔۔] حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے میرے کندھے کو پکڑکر فرمایا۔ دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کرو۔ مسائل: 1۔ اللہ ہی آسمان سے بارش برساتا اور اس کے ساتھ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ 2۔ مشرک توحید کے دلائل کا اقرار کرنے کے باوجود عقل سے کام نہیں لیتا۔ 3۔ موحد کو عقیدہ توحید سمجھنے اور اپنانے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 4۔ آخرت کے مقابلہ میں پوری کی پوری دنیا عارضی اور تھوڑی ہے۔ تفسیر بالقرآن: لوگوں کی اکثریت کا حال : 1۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل والاہے لیکن لوگوں کی اکثریت شکر گزار نہیں ہوتی۔ (البقرۃ:243) 2۔ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو نہیں مانتی۔ (الاعراف :187) 3۔ قرآن آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں مانتی۔ (ھود :17) 4۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا :13) 5۔ اگر آپ (ﷺ) اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو یہ آپ کو گمراہ کردیں گے۔ ( البقرۃ:145)