سورة البقرة - آیت 26

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ (کا کلام جو انسانوں ککو ان کی سمجھ کے مطابق مخاطب کرنا چاہتا ہے) اس بات سے نہیں جھجکتا کہ کسی (حقیقت کے سمجھانے کے لیے کسی حقیر سے حقیر کی) مثال سے کام لے۔ مثلاً مچھر کی، یا اس سے بھی زیادہ کسی حقیر چیز کی پس جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ (مثالیں سن کر ان کی دانائی میں غور کرتے ہیں اور) جان لیتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہے ان کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ لیکن جن لوگوں نے انکار حق کی راہ اختیار کی ہے تو وہ (جہل اور کج فہمی سے حقیقت نہیں پا سکتے۔ وہ) کہتے ہیں بھلا ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بس کتنے ہی انسان ہیں جن کے حصے میں اس سے گمراہی آئے گی اور کتنے ہی ہیں جن پر اس (کی سمجھ بوجھ سے) راہ (سعادت) کھل جائے گی۔ اور (خدا کا قانون یہ ہے کہ) وہ گمراہ نہیں کرتا مگر انہی لوگوں کو جو (ہدایت کی تمام حدیں توڑ کر) فاسق ہوگئے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید کی ابتدا میں مرکزی اور بنیادی باتوں کا تذکرہ ہوا یہاں قرآن مجید میں بیان ہونے والی امثال کی وضاحت اور ان کے ردِّ عمل کا بیان ہوتا ہے۔ انسانی فطرت شروع سے اس بات کی متقاضی رہی ہے کہ جو بات مشکل یا لطیف ہو وہ مثال کے ذریعے سمجھائی جائے تو نہ صرف بات اس کی سمجھ میں آ جاتی ہے بلکہ وہ آدمی کو مدت تک یاد رہتی ہے۔ فطرت کے اس تقاضے اور فہم کی آسانی کے لیے قرآن مجید میں کئی مسائل کو امثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ بالخصوص توحید کی حقانیت اور شرک کی ناپائیداری اور بے بضاعتی سمجھانے کے لیے جب یہ مثال دی گئی کہ شرک کا عقیدہ اور اس کے متعلقات مکڑی کے جالے کی طرح نا پائیدار اور کمزور ہیں جیسے مضبوط چھت کے ہوتے ہوئے مکڑی کا تانہ بانہ کمزور ہوتا ہے۔[ العنکبوت :41] جو نہ ہوا کو روکتا ہے اور نہ ہی مکڑی کا سردی اور گرمی میں دفاع کرتا ہے۔ بلکہ معمولی ہوا بھی جالے سمیت مکڑی کو اٹھا کر دور پھینک دیتی ہے۔ یہی مشرک کے عقیدے کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مضبوط سہارا چھوڑ کر کبھی مردوں کو پکارتا ہے اور کبھی بے جان شجر و حجر کو وسیلہ بناتا ہے۔ حالانکہ معبود ان باطل سے مکھی کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ کس قدر طالب و مطلوب کمزور ہیں۔[ الحج :73] مکھی کی مثال سے یہ بھی واضح ہوا کہ جس طرح عام مکھی پھول اور گندگی پر بیٹھنے سے پرہیز نہیں کرتی۔ ایسے ہی مشرک توحید اور شرک میں فرق نہیں کرتا اور جگہ جگہ ٹکریں مارتا پھرتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مشرک اور کافر ان مثالوں پر غور کرتے ہوئے اپنے باطل نظریہ پر نظر ثانی کرتے۔ اُلٹا انہوں نے یہ کہا کہ ربِّ جلیل کو اتنی حقیر چیزوں کی مثال نہیں دینا چاہیے تھی یہ امثال ذات کبریا کو زیبانہ تھیں۔ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ مخلوق ہونے کے ناطے تم سب یکساں ہو۔ اللہ تعالیٰ چھوٹی بڑی مخلوق کا واحد خالق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے ذرا اپنی طرف غور کیجئے کہ ایک باپ کے بچے حسن و جمال‘ طاقت و صلاحیت اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہوتے اس کے باوجود باپ ہونے کے ناطے وہ سب سے ایک جیسا پیار کرتا ہے۔ بلکہ فطرتاً کمزور اولاد کے ساتھ زیادہ شفقت کرتا ہے۔ جب فطرت تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے تو خالق اپنی مخلوق کو کیوں حقیر سمجھے وہ تو سب سے زیادہ رحیم وکریم ہے۔ قرآن نے مچھر کی مثال بیان نہیں کی صرف اشارہ فرما کر کفار کو چوکنّا اور ذلیل کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ کسی چیز کی مثال بیان کرے یا اس کی طرف اشارہ فرمائے بہر حال ساری کی ساری مخلوق اسی کی ہے۔ خالق اپنی مخلوق کے تذکرہ میں عار نہیں سمجھتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایمان داروں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انکار کرنے والوں کا کفر و تمرد اور زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے وہ چیز مادی ہو یا روحانی انسان کو نظر آئے یا اس کی آنکھیں اسے دیکھنے سے قاصر ہوں۔ سب کی سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے اسی لیے وہ ہدایت اور گمراہی کو اپنی ملکیت قرار دے کر اسے اپنی طرف منسوب کرتا ہے کہ میں جس کو چاہوں ہدایت دوں اور جس کو چاہوں گمراہ کروں لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کا طلبگار ہے۔ اسی لیے اس نے انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں تاکہ لوگ ہدایت پاجائیں لیکن لوگوں کی اکثریت ہمیشہ گمراہی کو پسند کرتی رہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو اختیاری قرار دیا ہے وہ جبرًا کسی کو ہدایت دیتا ہے اور نہ گمراہ کرتا ہے اس لحاظ سے ﴿ یُضِلُّ﴾ کا معنٰی ہوگا کہ جو گمراہ ہونا چاہتا ہے۔ اسے وہ گمراہی میں آگے بڑھنے دیتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کوئی مثال دینے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال پر ایمان والوں کا ایمان بڑھتا ہے اور کافر مزید گمراہ ہوجاتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر اعتراض کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔ 4۔ فاسق ہدایت پانے کی بجائے مزید گمراہ ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : توحید و شرک کے بارے میں چند امثال : 1۔ ایک غلام کے دو مالک ہوں تو؟۔ (الزمر :29) 2۔ ناکارہ اور کار آمد غلام کی مثال۔ (النحل :76) 3۔ مشرک کی تباہی کی مثال۔ (الحج :31) 4۔ باطل معبودوں اور مکھی کی مثال۔ (الحج :73) 5۔ دھوپ اور سایہ کی مثال۔ (فاطر :21) 6۔ اندھیرے اور روشنی کی مثال۔ (فاطر :20) 7۔ اندھے بہرے، دیدے اور سننے والے کی مثال۔ (ھود :24)