سورة العنكبوت - آیت 24

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر اس کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے کہا یا تو اسے قتل کردو یاجلاڈالو، آخرکار اللہ نے اسے آگ سے بچالیا بے شک اس واقعہ میں بھی ان لوگوں کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے جو خطاب کیا اس کا تذکرہ آیت سولہ اور سترہ میں ہوچکا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کے دلائل دیے گئے جو لوگ عقیدہ توحید کا انکار کرتے ہیں ان کی سزا بیان کی گئی۔ یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ کفار اپنے عقیدہ کی وجہ سے اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا رد عمل بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کے جواب میں قوم کا رد عمل تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں یا پھر اسے آگ میں جلا دیا جائے۔ ﴿قَالُوا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا اٰلِہَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ﴾[ الانبیاء :68] ” اگر اپنے خداؤں کو بچانا چاہتے ہو تو اس کو زندہ جلا دو۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امن عامہ کے تحت گرفتاری : حکمرانوں نے نے فیصلہ کیا کہ امن عامہ کے تحت ابراہیم (علیہ السلام) گرفتار کرلیا جائے۔ چنانچہ آپ کو دس دن تک جیل میں رکھا گیا اور پھر بادشاہ کی کونسل نے انہیں زندہ جلاد ینے کا فیصلہ کیا اس طرح عوام اور حکمران سب کے سب اس بات پر متفق ہوچکے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو زندہ نہ چھوڑا جائے بلکہ عبرتناک سزا دی جائے۔ عوامی مطالبہ : ﴿قَالُوا ابْنُوْا لَہُ بُنْیَانًا فَأَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ﴾[ الصّٰفٰت :97] ” اس کے لیے ایک بڑا گہرا گڑھا بناؤ اور اس کو آگ سے بھر کرابراہیم کو دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینک دو۔“ شا ہی آرڈنینس کے تحت پوری مشینری آگ کو بھڑ کا نے میں لگی ہوئی ہے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ لوگوں کے جذبات کا عالم یہ تھا کہ عورتیں نذریں ما نتی تھی۔ اگر فلاں مشکل یا بیماری رفع ہوجائے تو میں اتنی لکڑیاں آگ میں ڈالوں گی مؤ رخین نے تحریر کیا ہے کہ آج تک آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ آگ میں پھینکنے کا وقت آیا تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اس قدر پھیلی ہوئی آگ میں ابراہیم کو کس طرح پھینکا جائے۔ شا ہی کو نسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ ابر اہیم کو آگ میں کس طرح پھینکا جائے ؟ فیصلہ ہوتا ہے کہ ایسی مشین تیار کئی جائے جس میں جھو لادے کر آگ کے درمیان میں پھینکا جائے لہٰذا اس طرح کیا گیا تجویز دینے والے کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ زمین میں دھنستا جائے گا۔ (ابن کثیر ) مسائل: 1۔ قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے بچالیا۔ تفسیر بالقرآن: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کارد عمل : 1۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ (العنکبوت :16) 2۔ حضرت ابراہیم نے کہا اے میری قوم! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام :78) 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو تبلیغ کرتے ہوئے کہا اے ابا جان آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (مریم :42) 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں کو چیلنج۔ (الممتحنۃ:4) 5۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف انہوں نے سازش کی۔ اللہ نے انہیں خائب و خاسر کردیا۔ (الانبیاء :70) 6۔ مشرکین نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ کا الاؤ جلایا اور انہیں آگ میں ڈال دیا۔ ( الصّٰفّٰت :97) 7۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر دوں گا تجھے گھر سے نکال دوں گا۔ ( مریم :46)