سورة العنكبوت - آیت 1

لم

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

الم (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 3) ربط سورۃ : سورۃ القصص کا اختتام توحید کے مرکزی نقطہ پر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبود نہیں بنانا۔ چاہے حالات کتنے ہی ناگفتہ بہ ہوجائیں ایک داعی اور موحد کو ہر حال میں عقیدہ توحید پر قائم رہنا ہے۔ سورۃ العنکبوت کی ابتداء اس بات سے ہوئی کہ توحید کی دعوت دینے اور اس پر قائم رہنے پر مشکلات اور مصائب کا آنا ناگزیر ہے۔ ﴿المٓ﴾۔ حروف مقطعات ہیں جن کے بارے میں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ ان کا معنی اور مفہوم حدیث مبارکہ سے ثابت نہیں۔ صحابہ کرام (رض) ان کا معنی جانے بغیر ہی تلاوت کیا کرتے تھے۔ حروف مقطعات کے بعد ارشاد ہوتا ہے کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم ” اللہ“ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لانے سے آزمائش میں نہیں ڈالے جائیں گے ؟ انھیں یہ خیال چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے ایماندار لوگوں کو بھی چھوٹی، بڑی آزمائشوں کے ساتھ آزمایا اور تمہیں بھی ضرور آزمائے گا تاکہ وہ جان لے کہ ایمان کے دعویٰ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے دین اسلام کے اوصاف میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ دین اپنے ماننے والوں کو ہر حال میں خوشخبری نہیں سناتا بلکہ اس راستے میں آنے والی مشکلات اور مصائب سے بھی آگاہ کرتا ہے تاکہ دین اسلام کو قبول کرنے والا شخص ذہنی طور پر مشکلات کے لیے تیار ہو کر اسے قبول کرے۔ اس لیے یہاں بار بار تاکید کے الفاظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کی ذہن سازی فرمائی ہے کہ میں تمھیں ضرور بضرور آزماؤں گا۔ گھبرانے کی بات نہیں تم سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا کیونکہ سچے اور جھوٹے میں پرکھ کے لیے لازم ہے کہ تمھیں بھی آزمایا جائے مقصد یہ ہے کہ تمھارا رب خوب جان لے کہ کون دعویٰ ایمان میں سچا اور پکا ہے اور کون ایمان میں کچا اور جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جاننے کا یہ معنی نہیں کہ وہ کسی بات اور حقیقت سے بے خبر ہے اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ وہ دنیا میں بھی لوگوں کے سامنے ثابت کریں کہ سچے اور جھوٹے کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے۔ تاکہ مسلمان جھوٹے لوگوں کے ساتھ اسی انداز میں رہیں جس کا شریعت نے انھیں حکم دیا ہے۔ جہاں تک ایمان لانے کے بعد آزمائش کا تعلق ہے قرآن مجید نے دوسرے موقع پر یہاں تک فرمایا ہے کہ اے مسلمانو! کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ تم یونہی جنت میں داخل کیے جاؤ گے ؟ حالانکہ تمھیں ان حالات سے واسطہ نہیں پڑا جن حالات سے تم سے پہلے لوگوں کو واسطہ پڑا تھا انھیں ہر قسم کی تنگی اور تکلیف پہنچی اور وہ خوب ہلائے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ تب جا کر اللہ تعالیٰ نے انھیں خوشخبری سنائی کہ اللہ کی مدد تو آ ہی پہنچی ہے۔ (البقرۃ:214) (عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ قَالَ شَکَوْنَا إِلَی رَسُول اللَّہِ () وَہْوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَۃً لَہُ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ، قُلْنَا لَہُ أَلاَ تَسْتَنْصِرُ لَنَا أَلاَ تَدْعُو اللَّہَ لَنَا قَالَ کَان الرَّجُلُ فیمَنْ قَبْلَکُمْ یُحْفَرُ لَہُ فِی الأَرْضِ فَیُجْعَلُ فیہِ، فَیُجَاء بالْمِنْشَارِ، فَیُوضَعُ عَلَی رَأْسِہِ فَیُشَقُّ باثْنَتَیْنِ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دینِہِ، وَیُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِیدِ، مَا دُونَ لَحْمِہِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دینِہِ، وَاللَّہِ لَیُتِمَّنَّ ہَذَا الأَمْرَ حَتَّی یَسِیر الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَی حَضْرَمَوْتَ، لاَ یَخَافُ إِلاَّ اللَّہَ أَوِ الذِّئْبَ عَلَی غَنَمِہِ، وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ) [ رواہ البخاری : باب علامات النبوۃ] ” حضرت خباب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے رسول اللہ (ﷺ) سے اس وقت شکایت کی جب آپ (ﷺ) کعبہ کے سایہ میں چادر لپیٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کی آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے۔ آپ اپنے چہرے سے چادر ہٹاکر بیٹھ گئے اور فرمایا اللہ کی قسم تم سے پہلے لوگوں کو پکڑا جاتا اور ان کو ایک گھڑھے میں گاڑ کر اس کے سر پر آرا رکھ کر دو ٹکڑے کردیا جاتا۔ وہ پھر بھی اپنے دین پر قائم رہتا اس کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچ لیا جاتا لیکن پھر بھی دین سے منحرف نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب فرمائے گا کہ ایک سوار صنعا سے لے کر حضرموت تک تن تنہا سفر کرے گا۔ اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا اسے صرف اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا خوف ہوگا، لیکن تم عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُغَفَّل ٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ للنَّبِیِّ () یَا رَسُول اللَّہِ وَاللَّہِ إِنِّی لأُحِبُّکَ فَقَالَ انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ قَالَ وَاللَّہِ إِنِّی لأُحِبُّکَ فَقَالَ انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ قَالَ وَاللَّہِ إِنِّی لأُحِبُّکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ إِنْ کُنْتَ تُحِبُّنِی فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَی مَنْ یُحِبُّنِی مِنَ السَّیْلِ إِلَی مُنْتَہَاہُ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی فضل الفقر] ” حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (ﷺ) کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول میں آپ سے محبت کرتا ہوں آپ نے فرمایا اپنے دعویٰ پر غور کر کیا کہہ رہے ہو۔ اس نے کہا اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں آپ نے فرمایا پھر غور کرو کہ کیا کہہ رہے ہو اس نے عرض کی اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں اس نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی آپ نے فرمایا اگر تو مجھ سے محبت کرتا ہے تو فقر وفاقہ کے لیے تیار ہوجا۔ اس لیے کہ جو مجھ سے پیار کرتا ہے اس کی طرف فقر وفاقہ سیلاب سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آتا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ضرور آزماتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی امتوں کو بھی آزمایا تھا۔ 3۔ آزمانے کا مقصد جھوٹے اور سچے، کھرے اور کھوٹے کے درمیان فرق کرنا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء کرام (علیہ السلام) اور مومنوں کی آزمائش کی چند مثالیں : 1۔ سخت آزمائش کے وقت رسولوں اور ایماندار لوگوں نے گھبرا کر کہا کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ (البقرۃ:214) 2۔ اللہ کی طرف سے مومن کی خوف، بھوک، مال و جان کے نقصان سے آزمائش ضرور کی جاتی ہے۔ صابر مومن کے لیے خوشخبری ہے۔ (البقرۃ:155) 3۔ پہلے لوگوں کو بڑی بڑی آزمائشوں سے دو چار کیا گیا تاکہ پتہ چل جائے کہ سچا کون اور جھوٹا کون ہے۔ (العنکبوت :3) 4۔ ( ابرہیم (علیہ السلام) کا اسماعیل (علیہ السلام) کو قربانی کے لیے پیش کرنا) بہت بڑا امتحان تھا۔ (الصٰفٰت :106) 5۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو توحید کی خاطر آگ میں پھینکا جانابڑی آزمائش تھی۔ (الانبیاء :68) 6۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی بیوی اور نو مولود بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر جانا بہت بڑی آزمائش تھا۔ (ابرہیم :37) 7۔ ہم نے کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنے کے لیے پہلے لوگوں کو آزمایا۔ ( العنکبوت :2) 8۔ ہم نے زندگی اور موت کو آزمائش بنایا تاکہ دیکھیں تم میں سے کون نیک عمل کرتا ہے۔ ( الملک :2)