قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
فہم القرآن : (آیت 31 سے 32) ربط کلام : اسلام کے دشمنوں سے محبت رکھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے محبت کرو اور یہ اطاعت رسول کے بغیر ممکن نہ ہوگی۔ دنیا میں ہر مذہب کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قربت ومحبت کے حصول کے لیے اپنے اپنے طریقے ایجادکررکھے ہیں۔ یہودی اپنے آپ کو انبیاء کی اولاد اور خود کو ان کا وارث سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر ان کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب ہیں۔ مشرکوں نے اپنے بزرگوں، بتوں اور مزارات کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ ٹھہرا لیا ہے کچھ لوگوں نے دنیا سے لاتعلق ہو کر گوشہ نشینی، صحرا نور دی اور چلہ کشی کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ بنایا ہے۔ عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام)‘ ان کی والدہ، پوپ اور پادری کو درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا زینہ بنایا ہے۔ مسلمانوں نے زندہ اور فوت شدہ بزرگوں کو وسیلہ بنا لیا ہے۔ یہاں مثبت اور لطیف انداز میں ان طریقوں کی نفی کرتے ہوئے رسول اللہ (ﷺ) سے اعلان کروایا گیا ہے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کے طلب گار ہو تو اس کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تم صرف اور صرف میری فرمانبرداری کرو۔ کیونکہ آپکی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرتے ہوئے تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ معاف کرنے والا‘ نہایت ہی مہربان ہے۔ مسلمان اور کافر کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے ورنہ عیسائی، یہودی، مجوسی، ہندو، سکھ، بدھ مت، غرضیکہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا اعتراف اور اس کی عبادت نہ کرتی ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید انہیں کافر گردانتا ہے؟ اگر مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے اپنے انداز میں مانیں اور اس کی عبادت اپنے اپنے طریقے سے کریں تو مقام رسالت اور آپ کی اتباع کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟ کاش کہ مسلمان اتباع رسول کو سمجھنے کی کوشش کریں اور آپ کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا وسیلہ بنا کر دنیا وآخرت کی کامرانیوں سے سرفراز ہوجائیں۔ مقام نبوت اور رسول اللہ (ﷺ) کی اتباع کو سمجھنے کے لیے عقل مند کے لیے آپ کا ایک ہی ارشاد کافی ہے جو شخص اس کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے انحراف کرتا ہے اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انکار کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ ایک دن رسول اللہ (ﷺ) اور حضرت ابو بکر (رض) تشریف فرما تھے کہ حضرت عمر (رض) نے اچانک آپ کے سامنے تورات کا کچھ حصہ پڑھنا شروع کیا جس میں قرآن مجید کے احکامات کی تائید پائی جاتی تھی۔ جوں جوں حضرت عمر (رض) تورات پڑھ رہے تھے آپ کا چہرہ متغیر ہورہا تھا۔ حضرت ابو بکر (رض) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے عمر (رض) کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ آپ تورات پڑھے جارہے ہیں جب کہ سرور دو عالم (ﷺ) اس پر خوش نہیں ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے معذرت خواہانہ انداز میں عرض کیا کہ میں تو اللہ اور اس کے رسول پر مطمئن اور راضی ہوں تب آپ (ﷺ) نے یہ ارشاد فرمایا جو ہر مسلمان کے لیے مشعل زندگی ہونا چاہیے۔ آپ نے فرمایا : ( وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ مُوْسٰی (ﷺ) کَانَ حَیًّا مَا وَسِعَہٗ إِلَّا أَنْ یَّتَّبِعَنِیْ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی مسند السابق] ” اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتّباع کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔“ مسائل : 1۔ رسول محترم (ﷺ) کی اتباع ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ ہے۔ 2۔ رسول اللہ (ﷺ) کی اتباع کے سبب اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کفار سے محبت نہیں کرتا۔ تفسیربالقرآن: رسول معظم (ﷺ) کی اطاعت کے ثمرات : 1۔ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ (النساء :80) 2۔ اطاعت میں کامیابی ہے۔ (الاحزاب :71) 3۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت میں ہے۔ (آل عمران :132) 4۔ رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت اللہ کی محبت اور بخشش کاذریعہ ہے۔ (آل عمران :31) 5۔ اطاعت رسول سے نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کی رفاقت نصیب ہوگی۔ (النساء :69) 6۔ رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت کرنے والوں کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ (الفتح :17)