إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
بلاشبہ "الدین" (یعنی دین) اللہ کے نزدیک "الاسلام" ہی ہے اور یہ جو اہل کتاب نے آپس میں اختلاف کیا (اور گروہ بندیاں کرکے الگ الگ دیں بنا لیے) تو (یہ اس لیے نہیں ہوا کہ نہیں ہوا کہ اس دین کے سوا انہیں کسی دوسرے دین کی راہ دکھلائی گئی تھی یا دین راہ مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اس لیے کہ علم کے پانے کے بعد وہ اس پر قائم نہیں رہے اور آپس کی ضد و عناد سے الگ الگ ہوگئے۔ اور یاد رکھو جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے (اور ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتا ہے) تو اللہ ( کا قانون جز) بھی حساب لینے میں سست رفتار نہیں
فہم القرآن : (آیت 21 سے 22) ربط کلام : اسلام چھوڑ کر جس نے کفر کا راستہ اختیارکیا، انبیاء اور نیک لوگوں کو قتل کیا اس کے لیے سزا عذاب الیم ہے۔ اہل کتاب اور کفار کو باربار اسلام کی دعوت دی گئی۔ لیکن انہوں نے تسلیم کرنے کے بجائے انکار اور مخالفت کا راستہ اپنایا بالخصوص یہودیوں کی یہ تاریخ ہے کہ جب بھی ان کے پاس کوئی نبی اور مصلح آیا تو انہوں نے سمع واطاعت کی بجائے ان کے خلاف سازشوں اور تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ علامہ ابن جریر نے کئی حوالوں کے ساتھ تحریر فرمایا ہے کہ یہودی اس قدر سازشی اور تخریب کارتھے کہ انہوں نے ایک ہی دن میں صبح کے وقت 43 انبیاء کرام (علیہ السلام) اور دن کے پچھلے پہر 170 مذہبی رہنماؤں کو شہید کردیا۔ تاریخ کے اس المناک سانحہ کی نشاندہی کرتے ہوئے رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے رفقاء گرامی کو چوکس کیا جارہا ہے کہ یہودیوں کی ملمع سازی اور چکنی چپڑی باتوں سے بچتے رہیے۔ یہ ایسی قوم ہے کہ جن کی تاریخ گھناؤنے جرائم سے بھری ہوئی ہے۔ مدینے کے یہودیوں نے بھی آپ کے خلاف بارہا سازش کی کہ آپ کو شہید کردیا جائے۔ ایک دفعہ آپ ایک مکان کے صحن میں تشریف فرما تھے یہودیوں نے پروگرام بنایا کہ کچھ لوگ آپ کو گفتگو میں مصروف رکھیں اور دوسرے آدمی چھت کے اوپر سے آپ پر بھاری پتھر پھینک کر آپ کا خاتمہ کردیں۔ (البدایہ والنہایہ) ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی شاش بن قیس ایک بار صحابہ کرام (رض) کی ایک مجلس کے پاس سے گزرا۔ جس میں اوس و خزرج دونوں قبیلوں کے لوگ بیٹھے محبت و الفت کی باتیں کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر کہ ان کے درمیان جاہلیت کی باہمی عداوت و شقاوت کی جگہ اسلام کی الفت و اجتماعیت نے لے لی ہے۔ بوڑھایہودی سخت رنجیدہ ہو کر کہنے لگا۔ بخدا اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گزر نہیں ہو سکتا۔“ چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو حکم دیا کہ انصار اور مہاجرین کی مجالس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے واقعات کا ذکر کرے۔ اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں انہیں سنائے۔ اس یہودی نے ایسا ہی کیا۔ اس کے نتیجے میں اوس و خزرج میں تو تو میں میں شروع ہوگئی۔ لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر خنجر اٹھا لیے یہاں تک کہ دونوں قبیلوں کے آدمی ایک دوسرے کے خلاف گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ ایک نے اپنے مد مقابل سے کہا اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جو ان کر کے پلٹا دیں۔ اس پر دونوں فریقوں کو تاؤ آگیا اور بولے چلو ہم تیار ہیں حرہ میں مقابلہ ہوگا۔ اسلحہ۔۔ ! اسلحہ کی آوازیں بلندہوئیں! اور لوگ اسلحہ لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے۔ قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اللہ (ﷺ) کو بروقت خبر ہوگئی۔ آپ مہاجرصحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ سے ڈرو کیا میرے ہوتے ہوئے اور اسلام قبول کرنے کے باوجود آپس میں لڑ رہے ہو؟ سازشوں کا یہ سلسلہ رسول اللہ (ﷺ) کی حیات مبارکہ کے آخری دور تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ ہجرت کے ساتویں سال لبید بن اعصم یہودی نے آپ پر جادو کا ایسا وار کیا کہ آپ کی طبیعت کئی دنوں تک نڈھال اور پریشان رہی۔ گویا اس زمانے میں سب سے بڑے تخریب کار اور تشدد پسند یہودی تھے اور آج بھی بین الاقوامی سازشوں اور تخریب کاریوں کے پیچھے یہودی ہی کار فرما ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار، انبیاء اور نیک لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ اس قدر ناراض ہوتا ہے کہ انہیں اذیت ناک عذاب کی تنبیہ کرنے کے بجائے خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے دنیا اور آخرت میں اعمال غارت ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ قَتَلَہٗ نَبِیٌّ أَوْ قَتَلَ نَبِیًّا) [ مسند احمد : کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبدا اللہ بن مسعود] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب اس آدمی کو ہوگا جسے کسی نبی نے قتل کیا یا اس نے کسی نبی کو قتل کیا۔“ مسائل : 1۔ اللہ کے احکامات کے منکر اور انبیاء و علماء کے قاتل جہنم میں جائیں گے۔ 2۔ دنیاو آخرت میں ان کے اعمال ضائع ہوں گے اور ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن : یہودیوں کا گھناؤنا کردار : 1۔ یہودی انبیاء کے قاتل ہیں۔ (آل عمران :112) 2۔ یہودیوں نے انبیاء کی تکذیب 8 کی اور انہیں قتل کیا۔ (المائدۃ:70) 3۔ یہودی مشرک ہیں۔ (التوبۃ:30) 4۔ یہودی سازشی ہیں۔ (آل عمران :54) 5۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ:78) 6۔ یہودی جھوٹے اور سودخورہیں۔ (المائدۃ:63) 7۔ یہودی اللہ تعالیٰ کے گستاخ ہیں۔ (المائدۃ:64)