وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ
اور اے نبی آپ انہیں ابراہیم کا قصہ پڑھ کر سنائیے (٥)
فہم القرآن : (آیت 69 سے 77) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان ہونے والی کشمکش کا مختصربیان۔ اہل مکہ اپنے آپ کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں جابجا ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت اور ان کی بے مثال اور لازوال جدوجہد کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کو مشترکہ خطاب کرتے ہوئے استفسار فرمایا کہ آخر تم ان چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہو ؟ انھوں نے کہا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کے سامنے اعتکاف اور ان کی تعظیم کرتے رہیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پے درپے ان سے تین سوال کیے۔ جب تم ان کے سامنے فریاد کرتے ہو کیا یہ تمھاری فریادیں سنتے ہیں ؟ کیا تمھیں فائدہ پہنچاتے ہیں ؟ کیا کسی کو نقصان پہنچاسکتے ہیں؟ ظاہر ہے بت پتھر کے ہوں یا کسی اور چیز کے۔ وہ سن نہیں سکتے اور نہ ہی آج تک کسی بت نے اپنی پوجا پاٹ کرنے والے کو کبھی جواب دیا ہے۔ وہ تو ایک جگہ سے دوسریجگہ جا نہیں سکتے اور نہ ان میں جان اور حرکت پائی جاتی ہے وہ دوسرے کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جہاں تک ان کا کسی کو نقصان پہنچانے کا معاملہ ہے جن کوتراش اور توڑ، جوڑ کر بنایا جائے جو اپنادفاع نہیں کرسکتے وہ کسی کو کیا نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ان کے سامنے تھی جس بناء پر ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس لیے انھوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح ہی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کی وجہ سے ہم بھی اس طرح ہی ان کی عبادت اور اعتکاف کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یاد رہے کوئی قوم بنیادی طور پر یہ عقیدہ نہیں رکھتی کہ بت سنتے ہیں اور نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بتوں کی عبادت کے پیچھے یہ عقیدہ ہوتا ہے یہ کہ ہمارے بزرگوں کی شبیہات ہیں اور بزرگوں کی ارواح ان میں حلول کرچکی ہیں۔ لہٰذا ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ان کے توسط سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اس بنا پر اکثر لوگ بتوں کی عبادت سے انکار کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ اور ان کی قوم اس حد تک شرک میں آگے بڑھ چکی تھی کہ انھوں نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا کہ ہم ان کی عبادت کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کے سامنے اعتکاف اور ان کی تعظیم کرتے رہیں گے۔ کوئی اقرار کرے یا انکار کرے۔ قرآن مجید نے اس طریقہ عبادت کو غیر اللہ کی عبادت قرار دیا ہے۔ بے شک وہ بتوں، مزارات یا کسی اور چیز کو سامنے رکھ کر کی جائے۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق یہ غیر اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ اسی سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور تمام انبیاء (علیہ السلام) لوگوں کو روکتے رہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں ایک دفعہ پھر توجہ دلائی۔ سوچو اور غور کرو۔ جب یہ نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی نفع و نقصان کے مالک ہیں تو پھر تم ان کی کیوں عبادت کرتے ہو ؟ یقین جانو رب العالمین کے سوا یہ سب میرے دشمن ہیں۔ دشمن سے مراد یہ نہیں کہ بت کسی کی دشمنی کرسکتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ میں غیر اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان سب سے بیزار اور ان سے نفرت کرتا ہوں۔ اسی بات کو امت مسلمہ کے لیے نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ ” تمہارے لیے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء کے کردار میں نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان بتوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور تمہارے معبودوں کے کبھی قائل نہیں ہو سکتے اور جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ ہمارے اور تمہارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی (الممتحنۃ:4) یہی بات سرور دو عالم (ﷺ) نے بارہ سال کی عمر میں ایک پادری کو کہی تھی۔ نبی (ﷺ) کو قبل از نبوت شرک سے شدید نفرت تھی : آپ کی عمر مبارک بارہ سال دو مہینے دس دن ہوگئی۔ جناب ابو طالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر پر نکلے اور بصریٰ پہنچے بصریٰ شام کا مرکزی شہر تھا۔ اس شہر میں جرجیس نامی ایک راہب رہتا تھا، جو بُحَیرا کے لقب سے معروف تھا۔ جب قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا تو راہب اپنے گرجا سے نکل کر قافلے کے پاس آیا اور اس کی میزبانی کی۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ گرجے سے نہیں نکلتا تھا۔ اس نے آپ کے اوصاف کی بنا پر پہنچان لیا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ سید العالمین ہیں۔ اللہ نے اسے رحمۃ العالمین بنا کر بھیجا ہے۔ ابو طالب نے کہا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا ” تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لیے جھک نہ گیا ہو۔ یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ نہیں کرتیں۔ پھر میں اسے مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو کندھے کے نیچے نرم ہڈی کے پاس سیب کی طرح ہے اور ہم اسے اپنی کتابوں میں پاتے ہیں۔ اس کے بعد بحیرا نے ابو طالب سے کہا کہ انہیں واپس کر دو ملک شام نہ لے جاؤ۔ کیونکہ یہود سے خطرہ ہے اس پر ابو طالب نے بعض غلاموں کے ساتھ آپ کو مکہ واپس بھیج دیا۔ (الرحیق المختوم) سیرت ابن ہشام میں ہے کہ بحیرا نے آپ سے کہا کہ میں تجھ سے لات اور عزیٰ کا واسطہ دے کر کچھ سوال کروں گا جو نہی اس نے لات اور عزیٰ کے واسطے کی بات کی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے لات اور عزیٰ کا واسطہ دے کر سوال نہ کرنا۔ (قَامَ إلَیْہِ بَحِیرَی، فَقَالَ لَہُ یَا غُلَامُ أَسْأَلُک بِحَقّ اللّاتِی وَالْعُزّی إلّا مَا أَخْبَرْتَنِی عَمّا أَسْأَلُکَ عَنْہُ وَإِنّمَا قَالَ لَہُ بَحِیرَی ذَلِکَ لِأَنّہُ سَمِعَ قَوْمَہُ یَحْلِفُونَ بِہِمَا فَزَعَمُوا أَنّ رَسُول اللّہِ (ﷺ) قَالَ (لَہُ) لَا تَسْأَلْنِی بِاَللّاتِی وَالْعُزّی، فَوَاَللّہِ مَا أَبْغَضْتُ شَیْئًا قَطّ بُغْضَہُمَا) [ سیرۃ ابن ہشام] ” جب آپ (ﷺ) کھانے سے فارغ ہوئے تو بحیرہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے بچے میں تجھ سے لات وعزیٰ کا واسطہ دے کر کچھ سوال کروں گا۔ تو مجھے ان کے صحیح صحیح جواب دینا۔ بحیرا نے لات و عزیٰ کا واسطہ اس لیے دیا تھا کہ اس نے قافلے کے لوگوں کو لات وعزیٰ کی قسمیں اٹھاتے ہوئے سنا تھا اور اس سے اس نے تصور کیا کہ شاید آپ بھی ان کی قسمیں اٹھاتے ہوں گے۔ آپ (ﷺ) نے اسے فرمایا مجھ سے لات وعزیٰ کے نام نہ سوال کرنا۔ اللہ کی قسم میرے نزدیک ان دونوں سے زیادہ کوئی چیز قابل نفرت نہیں۔“ ” اللہ تعالیٰ نے نبوت کی نشانی کے طور اور نبوت عطا کرنے کے بعد معجزہ کے طور پر کچھ چیزوں کو نبی (ﷺ) کے سامنے جھکا یا تھا۔ ورنہ مشرکوں کے سوا ہر چیز صرف اپنے رب کو سجدہ کرتی ہے۔“ ( الحج :18) مسائل : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد اور اس کی قوم بتوں کے سامنے اعتکاف، رکوع، سجدے اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ 2۔ بت نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے تقلید آباء کو اپنی تائید کے طور پر پیش کیا۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے غیر اللہ کے ساتھ دشمنی کا اعلان فرمایا۔