سورة الشعراء - آیت 57

فَأَخْرَجْنَاهُم مِّن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اس طرح ہم انہیں باغات اور چشموں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 57 سے 59) ربط کلام : فرعون اور اس کے ذمہ دار لوگ بنی اسرائیل کے تعاقب میں فرعون کے حکم کے مطابق انتظامیہ کے لوگ اور بڑے بڑے لیڈر اپنے گھروں سے نکل کر اجتماعی شکل میں بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہیں۔ ان کے نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور عمدہ مکانوں سے نکالا اور اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث بنایا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے وقت سرکاری طور پر جو اعلان کیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لوگو! اپنے اپنے شہروں سے باہر نکلو بے شک بنی اسرائیل تھوڑے ہیں لیکن ان کا پوری طرح تعاقب کرو یہ لوگ جانے نہ پائیں۔ انتظامی نقطہ نظر سے چاہیے تو یہ تھا کہ فو ج کے چند دستے اور سول انتظامیہ کی بھاری نفری بھیج کر قلیل اور نہتے اسرائیلیوں کو گرفتار کرلیا جاتا یا پھر مار مار کر ملک کی سرحد سے باہر نکال دیا جاتا۔ لیکن فرعون نے طیش میں آکر سول انتظامیہ اور فوج کے ساتھ وزیروں، مشیروں اور ملک بھر سے بڑے بڑے پارٹی لیڈروں کو اکٹھا کر کے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔ ان کے اس طرح نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرماکر ثابت کیا ہے کہ یہ ہماری منشاء کے مطابق ہوا تاکہ ہم انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور ان کے محلاّت سے بےدخل کریں اور بنی اسرائیل کو ان کی تمام چیزوں کا وارث بنائیں۔ ﴿کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ وَزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیمٍ وَنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فَاکِہِیْنَ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاہَا قَوْمًا آخَرِیْنَ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمْ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنظَرِیْنَ وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْ اِِسْرَآئِیلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ۔ مِنْ فِرْعَوْنَ اِِنَّہٗ کَانَ عَالِیًا مِنَ الْمُسْرِفِینَ﴾ [ الدّخان : 25تا31] وہ لوگ بہت سے باغ، چشمے، کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہوا، ہم نے دوسرے لوگوں کو ان کا مالک بنا دیا۔ پھر ان پر نہ تو آسمان اور زمین کو رونا آیا اور نہ ان کو مہلت ہی دی گئی۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی۔ بیشک فرعون سرکش اور حد سے نکلا ہوا تھا۔“ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ اس کا یہ معنی نہیں کہ فرعون اور اس کے لشکر غرق کیے جانے کے بعد بنی اسرائیل ان کے محلاّت اور باغات کے مالک ہوئے۔ کیونکہ تاریخ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ ان کا فرمان ہے کہ جب بنی اسرائیل نے سمندر عبور کرنے کے بعد چالیس سال وادئ سینا میں گزارے تو پھر انھیں فلسطین کے علاقے کا اقتدار ملا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی برکات سے نوازا ہوا تھا۔ وہاں بنی اسرائیل کو ساری نعمتیں میسر آئیں جو مصر میں آل فرعون کو حاصل تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل فلسطین اور اس کے ملحقہ علاقوں پر قابض ہوئے۔ حقیقت کیا ہے : بے شک تاریخ سے بنی اسرائیل کا آل فرعون کے محلاّت اور باغات کا مالک ہونا ثابت نہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید یہاں کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ ہم نے آل فرعون کو غرق کیا اور بنی اسرائیل کو ان کے باغوں، چشموں اور محلّات کا مالک بنا یا۔ اس وضاحت کے بعد تاریخ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ جب کہ تاریخی ریکارڈ تسلسل کے ساتھ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل فلسطین کے ساتھ مصر کے بھی مالک ہوئے اور انہیں وہ سب کچھ ملا جو آل فرعون کے پاس ہوا کرتا تھا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے کسی قوم کو ان کے باغوں اور مکانوں سے بےدخل کر دے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان تمام چیزیں کا مالک بنایا جو آل فرعون کے قبضہ میں تھیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو وارث بنانے والا ہے : 1۔ اللہ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر کے دوسری قوم کو وارث بنایا۔ (الانعام :6) 2۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمھارے جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ :54) 3۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : 19۔20) 4۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔ (فاطر : 16۔17) 5۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (انساء :123) 6۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام :133)