إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ
بلاشبہ اللہ کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں
فہم القرآن : (آیت 5 سے 6) ربط کلام : بدلہ اور سزا دینے والی ہستی کے لیے ضروری ہے کہ وہ حالات‘ واقعات سے اچھی طرح باخبر ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے۔ جس سے زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں وہ ماں کے رحم میں ہونے والی تبدیلوں کو جانتا ہی نہیں بلکہ جس طرح چاہتا ہے انسان کی شکل و صورت بناتا اور اسے خاص ڈھانچے میں ڈھالتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ انسان کی ہر نقل و حرکت سے واقف ہے۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں وہ زمین کی گہرائیوں اور اس کے ذرّے ذرّے‘ آسمان کی بلندیوں اور اس کے چپے چپے سے واقف ہے۔ وہ تمہاری پیدائش کے ابتدائی مراحل سے آگاہ ہی نہیں بلکہ ماں کے رحم کے اندر لمحہ بہ لمحہ جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں انہیں بھی جانتا ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے تمہاری صورتوں اور قسمتوں کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ایسا کرنے پر غالب بھی ہے اور اس کے ہر کام اور فیصلے کے پیچھے حکمتیں بھی کار فرما ہوتی ہیں۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ پیدا ہونے والے کو طاقتور بنانا ہے یا کمزور، خوبصورت پیدا کرنا ہے یا قبول صورت، اس کا غریب ہونا بہتر ہے یا امیر، یہ نیک ہوگا یا بد۔ اللہ تعالیٰ تمام اور ہر قسم کے حالات جانتا ہے اور اسے ہر فیصلے پر اختیار ہے اور تم نہ دنیا میں اس کی دسترس سے باہر ہو اور نہ مرنے کے بعد۔ وہ ہر حال میں تم پر غالب ہونے کے باوجود تمہیں مہلت دیے ہوئے ہے۔ اس مہلت کے پیچھے اس کی بہت سی حکمتیں پنہاں ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْکُمْ لَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجَنَّۃِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ کِتَابُہٗ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ النَّارِ وَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول مکرم (ﷺ) نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے تو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم ہوتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں ایک بندہ عمل کرتارہتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جہنمیوں والے کام شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی آدمی برے عمل کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ جنتیوں والے اعمال شروع کردیتا ہے۔“ اس حدیث میں آدمی کے انجام کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی بھر ماحول کے اثر، بزرگوں کے خوف، ذاتی مفاد اور اسلامی حکومت کے جبر سے بظاہر نیک اعمال کرتے ہیں لیکن ایمان ان کے دل میں راسخ نہیں ہوتا محض ماحول کے جبر کی وجہ سے ظاہری طور پر نیک ہوتے ہیں۔ جو نہی انہیں موقعہ ملتا ہے وہ برائی کی طرف لپکے چلے جاتے ہیں ایسے ہی بے شمار لوگ سوسائٹی یا گھریلو اثرات کی وجہ سے نیکی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے لیکن فطرتًا نہایت ہی سعادت مندطبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ جب کبھی انہیں نیکی کا ماحول میسر آئے تو بہت سے نیک لوگوں سے بڑھ کر ذوق وشوق سے نیک کام سرانجام دیتے ہیں۔ موت کے قریب اس قسم کے لوگوں کی نیک نیتی اور حقیقی کردار ان کو اصلی انجام کی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کے برعکس فطری اور قلبی طور پر برا شخص موت کے وقت کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کے فرامین میں اسی فطری انجام کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ 2۔ وہی ماں کے رحم میں انسان کی شکل و صورت بناتا ہے۔ 3۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ غالب‘ حکمت والا ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ صورتیں بنانے اور اولاد دینے والا ہے : 1۔ لوگوں کی شکلیں اللہ تعالیٰ بناتا ہے۔ (آل عمران :6) 2۔ اللہ ہی بیٹے، بیٹیاں دیتا ہے۔ (الشوری :49) 3۔ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (الانعام :102) 4۔ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الزمر :62)