وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اور (انہیں یہ قصہ سناؤ) جب آپ کے رب نے موسیٰ کو پکارا کہ تم ایک ظالم قوم کے پاس جاؤ
فہم القرآن: (آیت 10 سے 14) ربط کلام : چھٹی آیت میں بتایا گیا ہے کہ عنقریب ان کے پاس وہ خبریں یعنی واقعات بیان کیے جائیں گے، کہ جن قوموں نے توحید کے دلائل اور اپنے رسول کو جھٹلایا ان کا انجام کیا ہوا۔ لہٰذا سنیں ان میں سر فہرست فرعون اور اس کے ساتھی تھے جنہیں موسیٰ نے ان الفاظ میں سمجھایا اور ڈرایا تھا۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) کو آپ کے رب نے یہ حکم دیا کہ ظالم قوم کے پاس جاؤ۔ جو فرعون کی قوم ہے انھیں سمجھاؤ کہ وہ اپنے رب سے ڈر جائیں۔ اس موقعہ پر موسیٰ نے یہ عذر پیش کیا الٰہی مجھ سے ان کا بندہ قتل ہوگیا اس لیے مجھے ڈر لگتا ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے واقعہ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ سے فرعون کی قوم کا ایک شخص غیر ارادی طور پر قتل ہوا۔ گرفتاری کے ڈر سے حضرت موسیٰ مصر سے بھاگ نکلے دس (10) سال حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس مدین میں رہے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انھیں اپنی دامادی کا شرف بخشا۔ مدین میں دس (10) سال رہنے کے بعد جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر آرہے تھے تو راستہ میں ایک جگہ انھوں نے روشنی دیکھی اپنی اہلیہ کو یہ بات کہہ کر اس روشنی کی طرف بڑھے کہ آپ یہاں ٹھہریں میں وہاں سے راستہ پوچھتا ہوں یا آپ کے تاپنے کے لیے آگ لاتا ہوں۔ موسیٰ اس روشنی کے قریب ہوئے تو آواز آئی کہ اپنا جوتا اتار دیں۔ آپ پاک سرزمین پر قدم رکھ چکے ہیں اور میں آپ کا رب ہوں۔ اس کی تفسیر سورۃ القصص، آیت : 29تا 35میں بیان کی جائے گی۔ (ان شاء اللہ) یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز کرنے کے ساتھ دو عظیم معجزے دیے گئے اور حکم ہوا کہ فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ انھیں ان کے انجام سے ڈراؤ وہ بڑے ظالم لوگ ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس موقع پر تین عذرپیش کیے تھے۔ 1۔ میری زبان پوری طرح رواں نہیں ہے اور میرا سینہ تنگی محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی ان کا سینہ کھول دیا گیا اور ان کی قوت گویائی ٹھیک کردی۔ (طٰہٰ: 25تا28) 2۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فریاد کی کہ میرے بھائی ہارون کے ساتھ مجھے مضبوط کیجیے وہ میرے کام میں شریک رہے اور اسے میرا وزیر بنا دیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا بھی قبول کی گئی۔ (طٰہٰ: 29تا36) 3۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے تیسرا عذر یہ پیش کیا کہ میرے رب میرے ذمہ ان کا ایک جرم ہے مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں۔ جرم سے مراد وہی جرم ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی ہجرت کرنے کا سبب بنا تھا جس کا ابھی ذکر ہوا ہے جس وجہ سے وہ خوف محسوس کرتے ہیں کہ انھیں قتل کردیا جائے گا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ہمارے دیے ہوئے معجزات کے ساتھ دونوں جاؤ یقیناً ہم تمھارے ساتھ ہیں اور تمھاری فرعون کے ساتھ ہونے والی گفتگو سن رہے ہوں گے۔ سورۃ طٰہٰ آیت 45۔ 46میں یہ بھی ذکر ہے کہ موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) نے عرض کی ہمارے رب ! ہم خوف محسوس کرتے ہیں کہ فرعون ہم پر زیادتی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں میں سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہوں گا۔ ان تسلیوں اور معجزات کے ساتھ حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) فرعون کی طرف بھیجے گئے۔ اس میں ”إِذْ“ کا لفظ بول کر نبی (ﷺ) کو یہ بات باور کر وائی ہے کہ اے پیغمبر ! موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ پر غور فرمائیں کہ وہ کتنے کٹھن حالات میں فرعون کی طرف بھیجے گئے تھے۔ فرعون پرلے درجے کا سرکش اور اپنے آپ کو ”اَنَا رَبُّکُمُ الاَعْلٰی“ کہلوانے والا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے خوف سے بنی اسرائیل پر مسلسل ظلم کر رہا تھا۔ اس کی قوم، اس کے مظالم میں برابر کی شریک ہوچکی تھی۔ غور فرمائیں کہ آپ کے مقابلے میں فرعون جیسی قوت رکھنے والا کوئی شخص نہیں ہے۔ بے شک آپ کی قوم آپ اور آپ کے ساتھیوں پر زیادتی کرنے والی ہے۔ لیکن ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو آپ پر سب کچھ نچھاور کرر ہے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں بہتر حالات میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے لہٰذا آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو اپنی معیت کا یقین دلایا تھا۔ آپ بھی یقین رکھیں کہ آپ کے رب کی مدد ہر وقت آپ کے ساتھ رہے گی۔ مسائل: 1۔ فرعون اور اس کی قوم ظلم کرنے والے تھے۔ 2۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی تینوں درخواستوں کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار، اختیار اور علم کی بناء پر آدمی کے ساتھ ہوتا ہے : 1۔ نبی (ﷺ) نے غار ثور میں ابوبکر کو فرمایا کہ ” اللہ“ ہمارے ساتھ ہے۔ ( التوبہ :40) 2۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : 16، الواقعہ :85) 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ( المجادلۃ:7)